دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
دل نہ پہنچا گوشۂ داماں تلک
قطرۂ خوں تھا مژہ پر جم رہا
تشریح
شعر کی بلاغت قابل داد ہے۔ دل کا اصل مقصود یہ ہے کہ وہ معشوق کے ہاتھ تک پہنچے، بلکہ بہتر تو یہ ہے کہ معشوق کے دل سے مل مل جائے۔ لیکن اس بات کا شعر میں کہیں ذکر نہیں کیا، بلکہ ایک غیر متعلق بات کہی ہے کہ دل گوشۂ داماں تک نہ پہنچا۔ اصل مدعا یہ ہے کہ دل میں اتنی سکت تو تھی نہیں کہ معشوق کے ہاتھ تک پہنچے یا اس کے دل سے مل جائے۔ داماندگی نے اتنا کم کوش کردیا تھا کہ بس یہی تمنا تھی کہ دامن کے کنارے تک پہنچ جائے۔ لیکن یہ تمنا بھی پوری نہ ہوئی۔ دل تو محض ایک بوند بھر خون تھا، آنکھوں تک کھینچ کر آیا لیکن دامن پر نہ ٹپک سکا۔ معمولی آنسو ہوتا تو دامن پر آ گرتا۔ لیکن وہ تو قطرۂ خون تھا، اور خون کی صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ جلدی سے جم جاتا ہے۔ لہٰذا دل پلک پر آ کر ٹھہر گیا، جم کر رہ گیا۔ یہ انداز بھی خوب ہے کہ دل کو قطرۂ خوں یوں کہا ہے گویا یہ عام سی بات ہو کہ دل تو قطرۂ خون ہوتا ہی ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ دل کو غموں نے خون کیا ہے۔ اس طرح دل کا غموں کے ہاتھ خون ہونا بھی ظاہر کردیا اور خون ہوجانے کے باعث اس کی نارسائی بھی ظاہر کردی۔ پورا مضمون دردناک ہے لیکن لہجے میں آہ وزاری کا شائبہ تک نہیں، کوئی شدت بھی نہیں، کوئی شدت بھی نہیں، گویا رواروی میں ایک بات کہہ دی۔ خوب شعر کہا ہے۔ لیکن لہجے کی شدت اور پیکر کی ندرت کے اعتبار سے قائم چاندپوری نے بھی اس مضمون کو ایک غزل کے دو شعروں میں لاجواب طرح سے لکھا ہے؎
نہ دل بھرا ہے نہ اب نم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی جو روئے تھے خوں جم رہا ہے آنکھوں میں
وہ محو ہوں کہ مثال حباب آئینہ
جگر سے کھنچ کے لہو جم رہا ہے آنکھوں میں
لیکن میر کے یہاں دل کی نارسائی کا جو پہلو ہے اس رتبے کی کوئی چیز قائم کے شعروں میں نہیں۔
قدرت اللہ قدرت نے اس مضمون کو بہت ہلکا کردیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں تصنع بھی ہے، اور دل کا ذکر نہ ہونے کی وجہ سے معنویت کم ہوگی؎
اشک اب آنے سے کچھ یاں تھم رہے
لخت دل مژگاں پہ شاید جم رہے
شمس الرحمن فاروقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.