فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا
فراق یار میں کچھ کہئے سمجھایا نہیں جاتا
دل وحشی کسی صورت سے بہلایا نہیں جاتا
ہمیں نے چن لئے پھولوں کے بدلے خار دامن میں
فقط گلچیں کے سر الزام ٹھہرایا نہیں جاتا
سر بازار رسوا ہو گئے کیا ہم نہ کہتے تھے
کسی سودائی کے منہ اس قدر آیا نہیں جاتا
گریباں تھام لیں گے خار تو مشکل بہت ہوگی
گلابوں کی روش پر اتنا اٹھلایا نہیں جاتا
مہک جائے گی میری خامشی بھی بوئے گل ہو کر
ندائے حق کو قید و بند میں لایا نہیں جاتا
ادھر وہ عہد و پیمان وفا کی بات کرتے ہیں
ادھر مشق ستم بھی ترک فرمایا نہیں جاتا
انیسؔ اٹھو نئی فکروں سے راہیں ضو فشاں کر لو
مآل لغزش ماضی پہ پچھتایا نہیں جاتا
- کتاب : SAAZ-O-NAVA (Pg. 65)
- مطبع : Raghu Nath suhai ummid
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.