گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
تشریح
اردو شاعری میں غم کا دفاع جس طرح غالبؔ نے کیا ہے، اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ وہ نہایت تکلیف دہ حالات میں بھی ان کا کوئی مثبت پہلو تلاش کر لیتے ہیں۔ محبوب ناراض ہے تب بھی وہ خوش ہیں۔
میں سادہ دل، آزردگیٔ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرر نہ ہوا تھا
محبوب نے وعدہ کرنے سے انکار کر دیا تو یہ کہہ کر اپنے دل کو سمجھا لیا کہ چلو اچھا ہوا ’’گوش منت کش گلبانگ تسلی نہ ہوا‘‘ غمِ عشق پریشان کر رہا ہے تو کرتا رہے ’’غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا‘‘ دل سے جگر تک کا راستہ خون کے دریا کا ساحل بن گیا ہے لیکن وہ یاد یہ کر رہے ہیں کہ اسی رہگزر میں کبھی جلوۂ گل بھی گرد تھا
دل تا جگر کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہگزر میں جلوۂ گل آگے گرد تھا
عشق کے نتیجے میں ملنے والے دکھ اور درد میں گرم آہیں نکل رہی ہیں۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ نڈھال ہوجاتے ہیں۔ آنسو خشک ہو جاتے ہیں اور گرم آہوں کی جگہ ٹھنڈی سانسیں لے لیتی ہیں۔ حالت ایسی اور سوچ کیا کیا ہیں۔ ’’ہاں لوگ ٹھیک ہی کہتے ہیں پانی ہوا بن جاتا ہے‘‘ غالبؔ غم کو زندگی کی اک حقیقت مانتے ہیں۔ وہ اپنے غموں کی داد نہیں طلب کرتے، نہ ان کو گلوریفائی کرتے ہیں۔ ان کے سوچنے کا انداز یہ ہے کہ :
’’موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں‘‘
اور
’’جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘
غالبؔ غم کا بیان خوب کرتے ہیں لیکن اپنے سامع یا قاری کو سوگوار نہیں کرتے۔ اگر غم کا کوئی فرحت انگیز بیان ممکن ہے تو وہ غالبؔ کی شاعری میں ہے۔ یہ ہمت اور حوصلہ بڑھانے والی موٹیویشنل شاعری ہے۔
زیرِ بحث شعر کو غالبؔ کے اس فکری رویے کی روشنی میں پڑھا جانا چاہیے۔ شاعر رو رہا ہے۔ اس کے آنسوؤں سے سیلاب آ گیا ہے اور گھر سمندر کا منظرنامہ پیش کر رہا ہے۔ ایسے میں وہ خود سے یا رونے سے منع کرنے والے کسی شخص سے کہتا ہے کہ ویرانی جس جگہ کا مقدر ہو اسے کون روک سکتا ہے۔ میں نہ روتا تب بھی یہ گھر ویران ہی ہوتا۔
’’بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا‘‘
سمندر کی تہہ میں ریت اور پانی میں کھارا پن ہوتا ہے۔ اگر وہ خشک ہو جائے تب بھی اس مقام پر سبزہ نہیں اُگ سکتا۔ دنیا کے کئی مقامات جو اب ریگستان ہیں کسی زمانہ میں سمندر ہوا کرتے تھے۔ شمس الرحمن فاروقی اس شعر کی تشریح میں کہتے ہیں ’’رونے اور ویرانی میں دو نازک ربط ہیں۔ ایک تو یہ کہ مسلسل آہ و زاری کی آواز سے اُکتا کر لوگوں نے گھر چھوڑ دیا اور ویرانی کی کیفیت پیدا ہوگئی اور دوسرا یہ کہ کثرتِ اشکباری نے سیلاب پیدا کردیا۔ سیلاب کی لائی ہوئی ویرانی سے اک اور نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں جب دوسروں نے گھر خالی کر دیا، متکلم وہیں موجود ہے اور ویرانی کا تماشہ دیکھ رہا ہے۔ پورے شعر میں دو پیکر بنتے ہیں۔ ایک تو اٹل تقدیر کے فرمان کا مستحکم پیکر اور دوسرا کسی ایسے مجبور یا دیوانے کا پیکر جو اپنی ہی لائی ہوئی ویرانی کا پابند ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.