Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے

میر تقی میر

ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    ہم بے خودان محفل تصویر اب گئے

    آئندہ ہم سے آپ میں آیا نہ جائے گا

    تشریح

    کہا جاتا ہے کہ میر کا کلام ’’آہ‘‘ ہے، اور سودا کا کلام ’’واہ‘‘ ہے۔ میں اس قسم کی ترمیمات کو غیر تنقیدی سمجھتا ہوں، لیکن محمد حسن عسکری نے ’’آہ‘‘ کو صوفیوں کی اصطلاح بتایا ہے اور لکھا ہے کہ اس سے مراد رنج وغم اور یاس نہیں بلکہ ’’علامت کمال عشق و درد، کہ زبان کے بیان سے قاصر ہو۔ ’’یقیناً ایسا ہی ہوگا، لیکن میر اور سودا کی انفرادیت کا تعین ان اصطلاحوں کے ذریعہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ ’’آہ‘‘ جس کو عسکری صاحب علامت کمال عشق و درد سے تعبیر کرتے ہیں، میر کے علاوہ دوسرے شعرا کے یہاں بھی ہوسکتی ہے۔ عملی طور پر ان دونوں شعرا کی انفرادیت (یعنی ان کے مزاج کی خصوصیت) کا مطالعہ کرنے کے لئے میر کے شعر زیر بحث کے سامنے سودا کا شعر رکھئے، زمین تو ایک ہے ہی، قافیہ بھی مشترک ہے۔ سودا کہتے ہیں؎

    رخصت ہے باغباں کہ ٹک اک دیکھ لیں چمن

    جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا

    میر کے یہاں جلوۂ معشوق یا ہستی کے سامنے خود کو نابود سمجھنے کی بات ہے۔ تصویر اور اصل میں وجود اور عدم وجود کا رشتہ ہوتا ہے۔ یعنی اصل تو وجود ہے، اور تصویر اس وجود کی نقل ہے، خود اس میں وجود نہیں۔ میر خود کو محفل تصویر کا ایک فرد سمجھتے ہیں، اور اس محفل میں بھی جس وجود محض تصویر کا حکم رکھتا ہے، وہ بے خود ہیں۔ یعنی معشوق کے وجود کے مقابلے میں ان کا وجود، عدم کے دوسرے درجے میں ہے۔ سودا خارجی دنیا کے مشاہدے میں مصروف ہیں، اور جانتے ہیں کہ یہ فرصت بھی چند روزہ ہے۔ یہاں سے اٹھے تو وہاں پہنچیں گے جہاں سے واپسی نہیں۔ شعر کا لہجہ طنزیہ ہے، طنز کا ہدف باغباں بھی ہے جو کہ اتنی مختصر سی فرصت بہم پہنچانے میں بھی بخل کرتا ہے اور خود وہ فرصت بھی ہے، جس کا انجام ہمیشہ ہمیشہ کی غیر حاضری ہے۔ سودا کے شعر میں ایک آزاد طنطنہ بھی ہے، کیونکہ موت کی حقیقت سے خوف یا محزونی کی جگہ موجود دنیا کے مشاہدے سے شغف کا اظہار ہے۔ دونوں شخصیتوں میں ایک جلال ہے، ایک وقار ہے، دونوں خود آگاہ ہیں۔ لیکن میر کی خود آگاہی روحانی اور داخلی ہے، اس کے برخلاف سودا کی خود آگاہی ہی خارجی دنیا کے حوالے سے ہے، اس لئے سطحی ہے۔ مابعدالطبیعیاتی اشاروں کی بنا پر میر کا شعر سودا کے شعر سے بہتر ہے۔ ڈرامائی انداز کلام دونوں میں مشترک ہے۔ اگر سودا کے یہاں پہلے مصرع میں روزمرہ گفتگو کی بےساختگی ہے تو میر کے یہاں دوسرے مصرع میں محاورے کی برجستگی ہے۔ رعایت لفظی دونوں کے یہاں ہے۔ میر کے شعر میں ’’آئندہ‘‘ (بمعنی ’’آنے والا‘‘) ’’آیا نہ جائے گا‘‘ کے ضلع کا لفظ ہے۔ سودا کے شعر میں ’’جہاں‘‘ (بمعنی ’’دنیا‘‘) ضلع کا لطف دے رہا ہے اور ’’آیا نہ جائے گا‘‘ میں ضلع کا بھی لطف ہے۔ سودا کے یہاں خفیف سا ابہام بھی ہے، کیونکہ یہ واضح نہیں کیا کہ کہاں جارہے ہیں۔ ممکن ہے عدم کو جانے کے بجائے قفس میں قید ہوجانے کی طرف اشارہ ہو۔ ملاحظہ ہو۔

    شمس الرحمن فاروقی

    مأخذ :
    • کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0048

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے