ہم سے کیا خاک کے ذروں ہی سے پوچھا ہوتا
ہم سے کیا خاک کے ذروں ہی سے پوچھا ہوتا
زندگی ایک تماشا ہے تو دیکھا ہوتا
دیکھتے گر ہمیں عالم کو بہ انداز دگر
اور ہی دشت جنوں میں دل رسوا ہوتا
کیا کیا اہل محبت نے مگر تیرے لیے
ہم نے اک صحن چمن اور بھی ڈھونڈا ہوتا
تم بھی ہوتے مے و نغمہ بھی دل شیدا بھی
اور ایسے میں اگر ابر برستا ہوتا
ہنس کے اک جام پلاتا کوئی دیوانے کو
پیار تو ہوتا مگر کاہے کو سودا ہوتا
تذکرے ہوتے رہے چاک گریبانوں کے
ہاں تری بزم طرب میں کوئی ایسا ہوتا
تشنہ لب کون ہے گو جام نہ آیا ہم تک
دور اک اور چلا خون جگر کیا ہوتا
خاک نے کتنے بد اطوار کئے ہیں پیدا
یہ نہ ہوتے تو اسی خاک سے کیا کیا ہوتا
اس سے ملنا ہی غضب ہو گیا ورنہ انجمؔ
در بدر پھرنے کا جھگڑا بھی نہ اٹھا ہوتا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.