اک یاد سو رہے کو اٹھاتی ہے آج بھی
اک یاد سو رہے کو اٹھاتی ہے آج بھی
خود جاگتی ہے مجھ کو جگاتی ہے آج بھی
یہ کیسی مطربہ ہے جو چھپ کر جہان سے
دھیمے سروں میں رات کو گاتی ہے آج بھی
صدیاں گزر گئیں جسے ڈوبے ہوئے یہاں
اس کو صدائے شوق بلاتی ہے آج بھی
جس شہر آرزو کے نشانات مٹ گئے
دل کی نگاہ پھر وہیں جاتی ہے آج بھی
ہونٹوں پہ بار بار زباں پھیرتا تھا جو
اس قافلے کی پیاس رلاتی ہے آج بھی
پربت کی چوٹیوں پہ وہ روتی ہوئی گھٹا
کس حادثے پہ نیر بہاتی ہے آج بھی
بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے
وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی
ہر روز آ کے خواب میں پازیب کی صدا
دھڑکن ہمارے دل کی بڑھاتی ہے آج بھی
حسرتؔ کوئی تو کھو گیا عمر عزیز کا
جو ننگے پاؤں دوڑتی جاتی ہے آج بھی
- کتاب : Tanveer-e-Fan (Pg. 72)
- Author : Author Ajeet Singh 'Hasrat',Compiled by Dr. Keval Dheer, Mitr Nikodari
- مطبع : Dr. Bhajan Singh, 189 Model Gram, Ludhiana-02 (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.