اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا
اس طلسم روز و شب سے تو کبھی نکلو ذرا
کم سے کم وجدان کے صحرا ہی میں گھومو ذرا
نام کتنے ہی لکھے ہیں دل کی اک محراب پر
ہوگا ان میں ہی تمہارا نام بھی ڈھونڈو ذرا
بدگمانی کی یہی غیروں کو کافی ہے سزا
مسکرا کر پھر اسی دن کی طرح دیکھو ذرا
وقت کے پتھر کے نیچے اک دبا چشمہ ہوں میں
آؤ پیاسو مل کے یہ پتھر اٹھاؤ تو ذرا
حسن اک دریا ہے صحرا بھی ہیں اس کی راہ میں
کل کہاں ہوگا یہ دریا یہ بھی تو سوچو ذرا
دو کلوں کے بیچ میں اک آج ہوں الجھا ہوا
میری اس کم فرصتی کے کرب کو سمجھو ذرا
وسعت کون و مکاں بھی اب ہوئی جاتی ہے تنگ
اور بھی کچھ اے جنوں والو ابھی سمٹو ذرا
تھک گئے ہوگے بہت پر پیچ تھی چاہت کی راہ
آؤ میری گود میں سر رکھ کے سستا لو ذرا
ایک مٹتے لفظ کے بھی کام آ جاؤ کبھی
سنگ دل پر مٹنے سے پہلے مجھے لکھ لو ذرا
ہے تعاقب میں نعیمیؔ سایہ سا اک روز و شب
دوست ہی شاید ہو کوئی مڑ کے تو دیکھو ذرا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.