جی اگر زلفوں کے سودے میں ترے دوں تو نہ بول (ردیف .. ن)
جی اگر زلفوں کے سودے میں ترے دوں تو نہ بول
پہلی قیمت کے تئیں مشک بہا کہتے ہیں
تشریح
میر صاحب اس ذرا سے شعر میں کیا رنگ دکھا رہے ہیں کہ بس سر دھنتے رہ جائیے۔
فرماتے ہیں کہ اگر تیری زلف کے بدلے میں اپنی جان دے دوں تو کچھ بولیو مت، کیونکہ پہلی قیمت جو ہوتی ہے اسے مشک جیسا قیمتی مانا جاتا ہے۔
یہ تو ہوا، سیدھا سیدھا مطلب۔
اب تہہ داری دیکھئے۔ ’جی دینا‘محاورہ ہے، جس کے معنی ہیں اتنی شدت سے کچھ چاہنا کہ اس کے لئے جان بھی دینا قبول ہو۔ کہتے ہیں نا ’’میں اس پہ جان دیتا ہوں‘‘ بس ’جی دینے‘ کا بھی یہی مطلب ہے۔ اس محاورے میں جو ’’دینا‘‘ ہے اسے محاوری معنی کے علاوہ بھی حقیقی معنی میں استعمال کیا ہے میر نے، اور کہا کہ اگر تیری زلف کے سودے میں میں اپنا جی دے کے تری زلف خرید لوں تو کوئی بحث مت کریئو۔ گویا محاوری معنی یعنی عاشق ہونا اور حقیقی معنی دونوں ایک جگہ جمع کر دیئے۔
ایک اور شعر میر کا سنتے چلئے، اور جی دینے پر جی دیجئے۔
مجنوں و کوہکن نہ تلف عشق میں ہوئے
مرنے پہ جی ہی دیتے ہیں اس خانداں کے لوگ
یعنی عشق وشق میں نہیں مرے مجنوں اور فرہاد ۔ اس قبیلے والے تو ویسے بھی مرنے پر جان دیتے ہیں، یعنی مرنا ہی چاہتے ہیں۔ ’’مرنے پر ’جی دینا‘ یعنی ’جان دینا‘ میں میر کا ورڈ پلے دیکھئے۔
محاورے میں ایسی جان ڈال دیتے ہیں کہ محاورے پہ جان دینے کا جی کر جائے بس۔
خیر واپس اسی شعر پر لوٹتے ہیں
جی اگر زلفوں کے سودے میں ترے دوں تو نہ بول
پہلی قیمت کے تئیں مشک بہا کہتے ہیں
دوسرا مصرع دیکھئے۔ یہ فارسی محاورے ’اوّل بہا مشک بہا‘ کا ترجمہ ہے۔ کہ پہلی قیمت کو مشک جیسا قیمتی سمجھو۔
بظاہر شاید یہ لگے کہ میر کہہ رہے ہیں کہ میرا جی مشک جیسا قیمتی ہے لیکن اس فارسی محاورے کا استعمال تب کیا جاتا ہے جب یہ بتانا ہو کہ چاہے پہلی قیمت کم ہو لیکن اسے مشک سے زیادہ قیمتی سمجھا جائے۔ بازار میں جب کوئی اپنا سامان بیچنے لائے اور کوئی خریدار بولی لگائے تو بہتر ہے کہ پہلی بولی کی قدر کی جائے، ایک وجہ تو یہ کہ آپ کے سامان کی قدر ہو رہی ہے وہ خریدار کی نظروں میں آیا ہے، اور یہ بھی کہ کہیں کوئی اور گاہک ملے یا نہ ملے، چاہے دام کم مل رہے ہوں لیکن ان کم داموں کو ہی مشک سے بہتر سمجھا جائے۔ انگریزی محاورہ ہے نا “A bird in th hand is worth to in the bush” وہی معاملہ ہے۔
اب دیکھئے اس محاورے کو سمجھنے کے بعد یہ شعر کھلتا ہے کہ میر اپنی جان، اپنا دل سب کچھ اس زلف کے سودے میں قیمت کے طور پر دینے کو تیار ہیں لیکن اس کے بعد بھی کہتے ہیں کہ دیکھ بحث مت کریئو قیمت پر، جیسے دکان دار بحث کرتے ہیں نا، کہ نہیں صاحب! قیمت کم لگائی آپ نے، اتنا سستا نہیں ہے وغیرہ وغیرہ۔ تو اس طرح کی بحث مت کریئو، ہاں ٹھیک ہے یہ جو میں نے قیمت لگائی ہے، مجھے علم ہے کہ یہ تیری شان کے مطابق نہیں ہے، لیکن چونکہ یہ پہلی قیمت ہے میری طرف سے، تو اسے مشک سے قیمتی ہی سمجھ لیا جائے حالانکہ ہے نہیں یہ مشک سے قیمتی، نہ ہی تیری قیمت لگ سکتی ہے میری جان اور دل سے۔
یہ ہے تہہ داری میر کی۔ ذرا سی بحر، اس میں محاورے بھی ہیں، محاوروں میں معنی کا اضافہ بھی ہے، شوخی بھی ہے، اور محبوب کی عظمت کا اعتراف بھی ہے۔
یوں ہی تھوڑے ہی میر کہہ گیا
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
کیا کیا کہا کریں ہیں زبان قلم سے ہم
اجمل صدیقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.