جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
تشریح
خدائے سخن میر کی شاعری ہزار زاویوں سے رنگارنگ نظر آتی ہے۔ ایک طرف سوز و غم کے مضامین بیان کرنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے تو دوسری طرف عشق کی نیرنگی میر کی زبان سے بہت بھلی معلوم ہوتی ہے ۔
جہاں تک اس شعر کے مضامین کا سوال ہے میر نے انسان کی ظاہری شان و شوکت کی بے حیثیتی اور بے ثباتی کو بیان کرنے میں بے مثال طرز اپنایا ہے۔
میر کہتے ہیں کہ آج دنیاوی عزت و غرور پر جو لوگ بےتحاشا بھاگ دوڑ کر رہے ہیں اور اسی مادّہ پرستی materialism کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں وہ ایک نہ ایک دن ختم ہو جانے والی ہے اور یہ عارضی شان و شوکت ضرور بالضرور فنا ہو جانے والی ہے ۔ یہ دنیاوی شان و شوکت، عزت و مرتبہ، تکبّر و حیثیت بس تب تک ہی کے لئے ہے جب تک کہ انسان زندہ ہے۔ اور جیسے ہی وہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے سارا تکبّر، ساری حیثیت اور ساری سروری ختم ہو جاتی ہے، بس باقی رہ جاتی ہے تو اس کی موت کی سوگواری، اداسی، نوحہ گری ۔
یہ شعر ایک پیغام دیتا ہے کہ اس بے ثبات حیثیت و منصب کا کیا فائدہ جس کی حدود موت تک ہی ہوں۔ اور موت کے بعد یہ ساری سربلندی، ساری شان و شوکت، اور ساری سروری بے فائدہ رہ جانے والی ہو !!
انسان کو اس ظاہری شان و شوکت پر اتنا گھمنڈ اور تکبر نہیں کرنا چاہیے۔
اصغر گونڈوی اسی بے ثباتی پر فرماتے ہیں۔
سنتا ہوں بڑے غور سے افسانۂ ہستی
کچھ خواب ہے، کچھ اصل ہے، کچھ طرز ِ ادا ہے
سہیل آزاد
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.