کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا
کاغذ کی ناؤ کیا ہوئی دریا کدھر گیا
بچپن کو جو ملا تھا وہ لمحہ کدھر گیا
معدوم سب ہوئیں وہ تجسس کی بجلیاں
حیرت میں ڈال دے وہ تماشا کدھر گیا
پھر یوں ہوا کہ لوگ مشینوں میں ڈھل گئے
وہ دوست لب پہ لے کے دلاسہ کدھر گیا
کیا دشت جاں کی سوختہ حالی کہیں اسے
چاہت میں چاند چھونے کا جذبہ کدھر گیا
تاریکیاں ہیں ساتھ مرے اور سفر مدام
کل تک تھا ہم قدم جو فرشتہ کدھر گیا
جو رہنما تھے میرے کہاں ہیں وہ نقش پا
منزل پہ چھوڑتا تھا جو رستہ کدھر گیا
- کتاب : Ghazal Ke Rang (Pg. 117)
- Author : Akram Naqqash, Sohil Akhtar
- مطبع : Aflaak Publications, Gulbarga (2014)
- اشاعت : 2014
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.