خاک پر خاک کی ڈھیریاں رہ گئیں
آدمی اٹھ گئے نیکیاں رہ گئیں
کس کی تعلیم کا آخری سال تھا
چوڑیاں بک گئیں بالیاں رہ گئیں
عشق اک روپ تھا حسن کی دھوپ کا
یاد کیوں دھوپ کی سختیاں رہ گئیں
خون میں گھل گئیں سانولی قربتیں
تن میں تپتی ہوئی ہڈیاں رہ گئیں
درد انگور کی بیل تھے پھل گئے
غم کشوں کے لیے تلخیاں رہ گئیں
عرصۂ فسق میں قسمت عشق میں
حکمت آمیز پسپائیاں رہ گئیں
قمقموں کی طرح قہقہے جل بجھے
میز پر چائے کی پیالیاں رہ گئیں
اس بلندی پہ ہم نے پڑاؤ کیا
جس کے آگے فقط پستیاں رہ گئیں
حسن کے ہاتھ سے آئینہ گر پڑا
فرش پندار پر کرچیاں رہ گئیں
ہم نے کاغذ کو بھی آئنہ کر دیا
لیکن اپنی سیہ بختیاں رہ گئیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.