Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا

میر تقی میر

کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    کیا تھا ریختہ پردہ سخن کا

    سو ٹھہرا ہے یہی اب فن ہمارا

    تشریح

    لفظ ’’پردہ‘‘ سے خیال ہوتا ہے کہ ممکن ہے میر کے ذہن میں مولانا روم کا یہ مشہور شعر رہا ہو؎

    خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں

    گفتہ آید در حدیث دیگراں

    (بہتر یہی ہوتا ہے کہ معشوقوں کے راز کی باتیں، اغیار کی باتوں کے ذریعے(یعنی پردے پردے میں) بیان ہوں۔)

    لیکن میر کے شعر میں کئی نکات ہیں۔ (1) شعرگوئی اس لئے اختیار کی کہ اپنی اصل باتوں پر پردہ ڈالنا مقصود تھا۔ لیکن وہ اصل باتیں کیا تھیں، اور ان کو پردے میں رکھنا، یا پردے میں بیان کرنا کیوں ضروری سمجھا، یہ ظاہر نہیں کیا گیا۔ یعنی یہاں بھی وہی پردہ ملحوظ رکھا جس کی خاطر شعر گوئی اختیار کی تھی۔ جو چیز پردے یا بہانے کے طور پر اختیار کی تھی اسی کو لوگوں نے ہمارا فن قرار دے دیا، یا ہم ہی نے اس کو اپنا فن بنا لیا، اس میں ایک طرح کا المیہ بھی ہے، لیکن اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اصل باتیں کبھی کھل کر معرض اظہار میں نہ آسکیں۔ لفظ ’’وہی‘‘ میں دونوں طرح کے اشارے موجود ہیں، یعنی ریختہ ہمارا فن ٹھہرا ہے، یا بات کو چھپانا ہمارا فن ٹھہرا ہے۔ کیوں کہ دوسرے مصرعے کی مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ دراصل ریختہ ہمارا فن نہیں ہے، بلکہ ریختہ کو سخن کا پردہ بنایا، یعنی بات کو چھپا کر کہنے کا انداز، یہ ہمارا فن ٹھہرا ہے۔ گویا ساری زندگی رازداری اور باتوں کو چھپانے میں گزر گئی۔ انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے، اس کے لئے اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ اظہار کے بجائے اخفائے حال کی ترکیبیں اس کا فن ٹھہریں۔ اخفائے حال کی ضرورت شاید ’’نامانوس خامشی‘‘ کو قائم رکھنے کے لئے ہو، جیسا کہ دیوان اوّل ہی کے اس شعر میں ہے؎

    ٹک سن کر سو برس کی ناموس خامشی کھو

    دو چار دل کی باتیں اب منہ پہ آئیاں ہیں

    ’’ریختہ‘‘، ’’سخن‘‘ (بمعنی ’’شاعری‘‘) اور ’’فن‘‘ کی رعایت ظاہر ہے۔ بے مثال شعر کہا ہے۔

    میر کے فرانسیسی ہم عصروالٹیئر(Voltaire) کا قول تھا کہ انسان کو نطق اس لئے عطا ہوا ہے کہ وہ اپنے اصل خیالات کو پوشیدہ رکھ سکے۔ اور والٹیئر کے تقریباً دو سو برس بعد آئی۔ اے۔ رچرڈس نے اپنی کتاب ’’معنی کا مفہوم‘‘The meaning of meaning میں لکھا ہے کہ دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو ہم اپنا مافی الضمیر ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں، یا پھر وہی کچھ کہہ جاتے ہیں جو ہماری مراد نہیں ہوتی۔ ان خیالات کی روشنی میں میر کا شعر اور بھی لذیذ ہوجاتا ہے۔

    قائم نے مصرع ثانی تقریباً پورے کا پورا میر کا لے لیا ہے۔ لیکن اس پر پیش مصرع بالکل مختلف مضمون کا، اور بڑے غضب کا لگایا ہے؎

    ہوس سے ہم کیا تھا عشق اوّل

    وہی آخر کو ٹھہرا فن ہمارا

    آخری بات یہ کہ میر کے شعر میں ’’ریختہ‘‘ اور ’’پردہ‘‘ میں ضلع کا ربط ہے۔ کیونکہ ’’ریختہ’‘ کے ایک معنی ہیں ’’گرا ہوا‘‘ اور پردے کے لئے ’’گرانے‘‘ کا لفظ مستعمل ہے۔

    شمس الرحمن فاروقی

    مأخذ :
    • کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0068

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے