کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو (ردیف .. ا)
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
تشریح
یہ شعر غالب کی ان چند مشہور غزلوں میں سے ایک کا ہے جو زبان زد خاص وعام ہیں ۔ اگر کہا جائے تو یہ کہہ کر بات ختم کی جاسکتی ہے کہ یہ محاکات کا شعر ہے مگر اتنے سے حق ادا نہیں ہوگا ۔ نہ جانے کیوں غالب کے اس شعر میں دو محاکات ایک ساتھ جمع دکھائی دیتے ہیں ۔ شاید یہ گمان بھی غالب کی فنکاری سے پیدا ہؤا ہے ۔ تیر نیم کش کی ترکیب محض صوتی آہنگ کی صورت میں حسین نہیں ہے بلکہ معنوی سطح پر بھی بہت دلچسپ پہلو رکھتی ہے۔
دیکھا جائے تو بنیادی طور پر تیر نیم کش کے معنی ادھ کھنچا تیر ہے ۔ یہ تو لفظی معنی ہوا لیکن اگر یہی مجازی ہو تو محبوب کی ادھ کھلی آنکھوں والی نظر یا آنکھ مارنا یا نظربچانا ، آنکھ دبانا وغیرہ یہ سب معنی ہوسکتے ہیں ۔ دونوں صورتوں میں اس شعر کے ایک سے زائد معنی اور پہلو نکلیں گے ۔ حقیقی معنی میں مفہوم یوں ہوگا کہ کوئی میرے دل سے پوچھے تمہاری آدھی کھینچ کے چلائی گئی تیر کو، یہ جو چبھن ہے اسی لیے ہے ، اگر کہیں پوری کھینچ کے چلائی گئی ہوتی تو ریت پر پانی کی طرح گزر جاتی خلش کا سوال ہی نہیں ہوتا ۔ مجازی معنی میں کہہ سکتے ہیں کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کہ تمہاری نین کے باڑ سے یہ چبھن کہاں سے ہوتی اگر ایک خاص انداز سے نظر نہیں چلائی جاتی۔
یہ بظاہر دو معنی ہیں مگر دراصل دوسرا پہلے ہی معنی کا پرتو ہے ۔ فنکاری یہ ہے کہ یہ واضح نہیں ہے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہوا ہے یا وہ ہے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے ۔ اگر شدت چبھن کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو تیر نیم کش وہ ہونا ہوناچاہیے جو پیوست سینے سے نکالا جا رہا ہے کیونکہ پیوست ہونے سے زیادہ خلش اسے نکالنے میں ہے ۔ اگر ایک بار کو مان لیا جائے کہ تیر نیم کش وہ ہے جو سینے میں پیوست ہو رہا ہے تو یہ معنی کے طور بہ ایں وجہ کمزور ہوگا کیونکہ اس میں خلش کی شدّت بہ نسبت دوسرے معنی کے کمزور ہے اؤر یہ کسی بھی عاشق کے لیے اچھا نہیں کہ محبوب ستم ایجاد کے کم ایذا پر اکتفا کرے، ایسی صورت میں عاشق کے قد پر سوالیہ نشان لگ جائے گا ، یوں بھی کم از کم غالب کا عاشق اتنا چھوٹا نہیں ہوسکتا ۔ بہر کیف معنی تو دونوں ہیں مگر اول الذکر میں معنویت زیادہ ہے ۔
پہلو یہ ہے کہ غالب نے کہا ہے کہ کوئی میرے دل سے پوچھے یہ ایک ایسا جملہ ہے جو عمومی طور پر ناقابل بیان اظہار کے لیے بولا جاتا ہے ۔ اسی طرح کے اؤر بھی جملے استمعال ہوتے ہیں مثلاً جو مجھ پر گزری وہ بس میں ہی جانتا ہوں ، جس پر بیتتی ہے وہی جانتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ غالب کا یہ جملہ نہ صرف حسن بیان کے لیے ہے بلکہ اس میں شدت خلش کا ایک ہلکا سا اشارہ بھی موجود ہے ۔ اگر شدت خلش کا درجۂ غایت مقصود نہیں ہوتا تو کوئی میرے دل سے پوچھے یہ حصہ بے معنی ہوکر رہ جاتا۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر گمان کیا جاتا کہ عاشق اس چبھن سے تلذذ محسوس کررہا ہے ۔ ویسے اس کے انکار کا بھی کوئی جواز نہیں ہے مگر یہ بھی ایک زاویہ ہے کہ کوئی میرے دل سے پوچھے کے بعد یہ خلش کہاں سے ہوتی کہنے میں بھر پور شکوے کا انداز بھی ہے۔
اگر دھیان سے دیکھا تو اس شعر میں محاکات وغیرہ جو ہیں سو ہیں مگر بین المتون تلذذ ، شدت خلش اؤر شکوہ، تینوں کا پہلو نکل آتا ہے ۔ باالفاظ دیگر غالب نے ایک تیر نیم کش سے دو معنی اور تین جذبے کا شکار کیا ہے۔ غالب یوں ہی معنی آفرینی کا شاعر نہیں ہے۔
سیف ازہر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.