کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
کچھ نہ دیکھا پھر بجز یک شعلۂ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا
تشریح
شعلے کا پرپیچ و تاب ہونا آگ کی تیزی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور اس بات کو بھی کہ پروانے کے دل میں اس قدر گرمی تھی کہ اس کے جل اٹھنے پر جو شعلہ اٹھا وہ بھی بے چین اور بےقرار تھا۔ ’’پیچ و تاب‘‘ کا لفظ پروانے کے دل میں جذبات کے تلاطم کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ (پیچ و تاب کھانا‘‘ یعنی بے قرار ہونا، انگاروں پر لوٹنا۔‘‘) اگر شمع اور پروانہ کو معشوق اور عاشق کا استعارہ فرض کیا جائے تو مراد یہ ہوئی کہ معشوق کا سامنا ہوتے ہی عاشق کی ہستی مٹ کر صرف ایک شعلۂ جوالہ بن گئی۔ خوب شعر کہا ہے۔ بیان کا ڈرامائی انداز بھی بہت خوب ہے، کئی باتیں ان کہی چھوڑ دی ہیں (مثلاً منظر کا صرف ایک حصہ بیان کیا ہے، یا یہ ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کے شعلے سے جل اٹھایا صرف نزدیک پہنچنے پر اس کا یہ حال ہوا۔) بیان کے اختصار نے شدت پیدا کردی ہے، یہاں تک کہ یہ بھی ظاہر نہیں کیا کہ پروانہ شمع کی طرف کیوں گیا تھا۔ جب کہ غالب نے بات واضح کردی ہے؎
کرنے گئے تھے اس سے تغافل کا ہم گلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہوگئے
شعرکا ڈرامائی لہجہ اس وجہ سے کچھ مزید پر اثر ہوگیا کہ جو واقعہ بعد میں پیش آیا (پروانے کا جل اٹھنا) اسے پہلے بیان کیا ہے، اور جو واقعہ پہلے پیش آیا (پروانے کا شمع کی طرف جانا) اسے بعد میں رکھا ہے۔ واقعے کو بیان کرنے کا انداز بھی میر کا اپنا ہے، گویا دو شخص آپس میں تبصرہ کر رہے ہوں، یا کوئی عینی شاہد کسی تیسرے شخص کو واقعے کی روداد سنا رہا ہو۔
قائم چاند پوری نے میر کا مضمون براہ راست باندھا ہے، لیکن وہ میر کے مصرع اولیٰ کا جواب نہ لاسکے۔ میر کے یہاں پیکر بہت متحرک اور بصری ہے، اور اسلوب بہت ڈرامائی۔ اس ڈرامائیت کو دوسرے مصرعے سے اور تقویت ملی ہے، مصرع ثانی میں لفظ ’’تو‘‘ انتہائی قوت رکھتا ہے۔ قائم نے مصرع اولیٰ میں یہ لفظ رکھا ہے، اور اس سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ان کا شعر پیکر سے محروم ہے؎
شمع تک جاتے تو دیکھا تھا ہم اس کو قائم
پھر نہ معلوم ہوئی کچھ خبر پروانہ
سید محمد خان رند نے بھی اس مضمون کو نبھانے کی کوشش کی ہے؎
اور میں راز نیاز عشق سے واقف نہیں
یہ تو دیکھا ہے سرپروانہ تھا اور پائے شمع
رند کا دوسرا مصرع عمدہ ہے۔ لیکن مصرعے میں تصنع آ گیا ہے، اس لئے ان کا شعر قائم سے بھی کمتر رہ گیا۔ دوسرے مصرعے کا ڈرامائی اور مبہم انداز بہرحال بہت خوب ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0075
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.