کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے
کچھ سمجھ آیا نہ آیا میں نے سوچا ہے اسے
ذہن پر اس کو اتارا دل پہ لکھا ہے اسے
ان دنوں اس شہر میں اک فصل خوں کا رقص ہے
ہم بہت بے بس ہوئے ہیں، میں نے لکھا ہے اسے
دھوپ نے ہنس کر کہا دیکھا تجھے پگھلا دیا
برف کیا کہتی نفاست نے ڈبویا ہے اسے
باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی
اب کہ وہ بازار میں ہے اب تو بکنا ہے اسے
کل بھرے بادل میں کیا رنگوں کا دروازہ کھلا
مجھ کو کل تک تھا یہ دعویٰ میں نے سمجھا ہے اسے
ایک شے جس کو عموماً صرف دل کہتے ہیں لوگ
مر گیا ہوتا مگر میں نے بچایا ہے اسے
کرب دل کا میرے لب پر آئے گا منظورؔ کیا
میں نے خون دل سے کاغذ پر اتارا ہے اسے
- کتاب : Karwaan-e-Ghazal (Pg. 398)
- Author : Farooq Argali
- مطبع : Farid Book Depot (Pvt.) Ltd (2004)
- اشاعت : 2004
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.