aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں

گویا فقیر محمد

کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں

گویا فقیر محمد

MORE BYگویا فقیر محمد

    کیوں کر نہ خوش ہو سر مرا لٹکا کے دار میں

    کیا پھل لگا ہے نخل تمنائے یار میں

    چاہا بہت ولی نہ موا ہجر یار میں

    محبوب کیا اجل بھی نہیں اختیار میں

    موباف سرخ کیوں نہ ہو گیسوئے یار میں

    شبخون یعنی لاتے ہیں شبہائے تار میں

    موباف ہے کنارے کا زلف نگار میں

    یا برف کوندتی ہے یہ ابر بہار میں

    راحت کے ساتھ رنج بھی ہے روزگار میں

    ہنسنے پہ گل کے روتی ہے شبنم بہار میں

    پنہاں ہوا ہے خال خط مشک بار میں

    ملتا نہیں ہے ڈھونڈھے سے نافہ تتار میں

    مر جاؤں گا خیال رخ و زلف یار میں

    آ جائے گی اجل اسی لیل و نہار میں

    لپٹی ہے چوٹی یار کی پھولوں کے ہار میں

    سنبل نے گل کھلائے ہیں فصل بہار میں

    آؤں نہ آپ میں جو وہ آئے کنار میں

    رکھوں میں اپنی طرح اسے انتظار میں

    سبزہ تک اپنی قبر کا خوابیدہ ہو گیا

    پر ہم کو نیند آئی نہ اک دم مزار میں

    او برق طور تا بہ کجا لن ترانیاں

    پتھرا گئیں ہیں آنکھیں مرے انتظار میں

    جائیں کب آشنا تری دریا کی سیر کو

    اشک رواں سے رکھتی ہیں دریا کنار میں

    یہ کس نے آ کے قبر پہ بے چین کر دیا

    کیا سو رہی تھی چین سے کنج مزار میں

    آیا ہے خواب بھی شب وعدہ اگر ہمیں

    آنکھیں کھلی رہی ہیں ترے انتظار میں

    خاک چمن سے کیا ہے مرا کالبد بنا

    داغوں سے گل جو کھلتے ہیں فصل بہار میں

    بعد از فنا بھی حسن پرستی سے کام ہے

    آئینہ ساں صفائی ہے سنگ مزار میں

    آنسو بہاؤں آنکھوں سے اس کو لگا کے میں

    موتی پروؤں یار کی پھولوں کے ہار میں

    کیوں منہ سے بولتا نہیں نکلا ہے اب تو خط

    دروازہ بند باغ کا مت کر بہار میں

    روتے ہیں یاد گوہر دندان میں ان دن

    موتی بھرے ہیں مثل صدف یاں کنار میں

    کہیے وہ لعل لب خط مشکیں میں دیکھ کر

    پیدا ہوا ہے لعل بدخشاں تتار میں

    فرہاد کی یہ آنکھیں ہیں شیریں کو ڈھونڈھتے

    اب دل غزال پھرتی نہیں کوہسار میں

    موذی ہے چرخ اس سے نہیں کج روی بعید

    سچ یوں ہے راستی نہیں رفتار میں

    تجھ بن نہیں یہ جلوہ نما شب کو ماہتاب

    چشم فلک سفید ہوئے انتظار میں

    تو سن کے ساتھ دوڑوں جو میں منع بھی کروں

    ظالم عنان صبر نہیں اختیار میں

    پھولوں کا ہار بن گیا ہے موتیوں کا ہار

    ایسا خوشی سے پھول گیا دست یار میں

    نفرت یہ ان گلوں کو ہے مرنے کے بعد بھی

    ہوتا نہیں ہے گل مرے شمع مزار میں

    گیسو کو اس کی کچھ نہیں پروائے نقد دل

    یہ مال وہ ہے جو ہے سب چشم یار میں

    دیتی ہے ناتوانی اگر رخصت چمن

    پھنستا ہوں دام موج نسیم بہار میں

    کرتا ہے کوئی ترک دلا نیزہ بازیاں

    دنبالہ سرمے کا یہ نہیں چشم یار میں

    پیسے گا استخواں اثر اضطراب دل

    عالم اب آسیا کا ہے سنگ مزار میں

    باغ جہاں میں عیش کے فرصت بہت ہے کم

    لبریز جام عمر ہے گل کا بہار میں

    کس ماہ وش سے رات ہم آغوش ہم ہوئے

    عالم ہلال کا ہے ہمارے کنار میں

    مثل حنا ہے غیر کی ہاتھوں مرے بہار

    سرسبز اگرچہ ہوں چمن روزگار میں

    آتا ہے جب وہ تن میں مرے جان آتی ہے

    جانے میں مثل عمر نہیں اختیار میں

    اللہ رے صفائی رخ یار دیکھنا

    حیران ہے آئینہ کف آئینہ دار میں

    اپنے گلے کے ہار کے گر وہ چڑھائے پھول

    پھولا نہ پھر سماؤں میں کنج مزار میں

    گر پیشوائے خلق ہے زاہد تو کیا ہوا

    تسبیح کا امام نہیں ہے شمار میں

    مضمون تری کمر کا ہے کیا آج بندہ گیا

    عنقا پھنسا ہے ان کی دام شکار میں

    جھڑتی ہیں منہ سے پھول جو کرتا ہے بات تو

    تجھ سا نہیں ہے گل چمن روزگار میں

    قاصد تو صاف کہہ دی مکدر ہے مجھ سے کیا

    لکھا جو نامہ یار نے خط غبار میں

    تلوار لے جو ہاتھ میں بن جائے شاخ گل

    سوسن کا پھول ہوئے سپر دست یار میں

    یہ کس نے آ کے قبر کو روندا ہے پاؤں سے

    آتی ہے بوئے گل مری خاک مزار میں

    بعد از فنا بھی خواہش دیدار یار ہے

    روزن کوئی ضرور ہے میرے مزار میں

    جب رات ہوتی ہے تو ستارے نکلتے ہیں

    افشاں ضرور چاہئے تھے زلف یار میں

    کس کو یہ ہوش ہے جو کرے چاک جیب کو

    باہر ہوں اپنے جامے سے فصل بہار میں

    فرمائش اپنی دیکھنے والوں پہ کرتی ہیں

    آنکھوں کے ڈورے ہوں مرے پھولوں کے ہار میں

    پاؤں سے اپنے آئے گی صحرا میں بھی بہار

    چھالے ہمارے پھول پروئیں گے خار میں

    واجب ہے آب تیغ سے کر لیجئے وضو

    سجدہ جو کیجئے خم ابروئے یار میں

    دریا میں اس کی تیر مژہ کا پڑے جو عکس

    سوراخ ہو ہر اک گہر آب دار میں

    آیا کبھی نہ یار نہ آیا میں آپ میں

    اپنے اور اس کے شکوے کیے انتظار میں

    ناسور پڑ گئی ترے دانتوں کے رشک سے

    روزن نہیں ہیں یہ گہر آبدار میں

    کھا کھا کے گل موا ہوں جو میں میرے خاک کے

    طاؤس بنتے ہیں چمن روزگار میں

    آتے ہی فصل گل مجھے جوش جنوں ہوا

    زنجیر در سے باغ کے باندھو بہار میں

    کرتے ہی صاف آئینے کو خاک دیکھ لے

    جوہر نہ پوچھ جو ہیں ہر اک خاکسار میں

    رکھتے نہیں غرور سے وہ پاؤں عرش پر

    چلتے ہیں سر کے بل جو رہ کوئے یار میں

    بتلاؤں کیا وہ کیسی ہے آرام کی جگہ

    سو جائیں پاؤں جاؤں اگر کوئے یار میں

    اپنے سوا نہیں ہے کوئی اپنا آشنا

    دریا کی طرح آپ ہیں اپنے کنار میں

    گویاؔ کبھی ہے یاس کبھی انتظار یار

    کیا کیا ہیں رنج زندگئ مستعار میں

    مأخذ:

    Diwan-e-Goya(Rekhta Website) (Pg. 116)

      • ناشر: منشی نول کشور، لکھنؤ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے