لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے (ردیف .. ا)
لیتے ہی نام اس کا سوتے سے چونک اٹھے
ہے خیر میرؔ صاحب کچھ تم نے خواب دیکھا
تشریح
میر کی عشقیہ شاعری کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس میں عاشق اپنی روایتی، مبالغہ آمیز صفات (جفا کشی، وحشت، آوارہ گردی، اشک بازی، خستگی، بدنامی، زخم خوردگی مقتولی، وغیرہ) کے ساتھ تو نظر آتا ہی ہے، لیکن جگہ جگہ و روزمرہ کی زندگی کا انسان نظر آتا ہے، یعنی ایسا انسان جو شاعری کے روایتی، خیالی عاشق کے بجائے کسی ناول کا جیتا جاگتا کردار معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے کہ عاشق کی شخصیت، یا اس کے حالات، یا اس کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرنے کے لئے کوئی اور شخص شعر کے متکلم کا کام کرتا ہے۔ اس طرح افسانوی کردار نگاری کا سب سے اعلیٰ مرتبہ، یعنی ڈرامائی کردار نگاری، حاصل ہوتا ہے۔ اس خصوصیت میں میر کا کوئی حریف نہیں، یہ ایسی انفرادیت ہے جس کا شائبہ بھی دوسروں میں نہیں۔ شعرِ زیر بحث میں یہ خوبی پوری طرح نمایاں ہے۔ منظر نامہ مذکور نہیں، لیکن شعر میں تمام اشارے موجود ہیں۔ وہ شخص آپس میں باتیں کر رہے ہیں، عاشق تھکا ہارا سو رہا ہے۔ اچانک گفتگو کے دوران معشوق کا نام کسی کی زبان پر آتا ہے، اور عاشق چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ اس چونکنے پر جو ردعمل ہے وہ بھی انتہائی واقفیت کا حامل ہے۔ گفتگو کرنے والے سمجھتے ہیں (یا شاید تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں) کہ عاشق نے کوئی پریشان کن خواب دیکھا ہے۔ دوسرے مصرعے میں مکالمے کی برجستگی قابل داد ہے۔ پھر معنوی اشارے دیکھئے۔ عاشق کی نیند کچی ہے، نیند میں بھی اسے معشوق کا خیال رہتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ معشوق کا نام خود میر کی زبان پر عالم خواب میں آیا ہو، اور نام لیتے ہی اس کی نیند ٹوٹ گئی ہو۔ ایسی صورت میں مکالمے کی ایک نئی صورت پیدا ہوتی ہے کہ شاعر خود کو ایک شخصِ غیر فرض کرتا ہے اور میر کوئی دوسرا شخص ہے۔
شمس الرحمن فاروقی
- کتاب : Guldasta Dar Guldasta(volume-4) (Pg. 158)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.