مری آنکھوں میں جب بھی تیرے منظر بیٹھ جاتے ہیں
مری آنکھوں میں جب بھی تیرے منظر بیٹھ جاتے ہیں
تو ان خالی سفینوں میں سمندر بیٹھ جاتے ہیں
کہا کس نے ٹھکانے پر قلندر بیٹھ جاتے ہیں
بظاہر پھرتے رہتے ہیں پر اندر بیٹھ جاتے ہیں
مجھے دنیا کے طعنوں پر کبھی غصہ نہیں آتا
ندی کی تہ میں جا کے سارے پتھر بیٹھ جاتے ہیں
یوں اٹھ اٹھ کر ہمارا بولنا دکھلائے محرومی
وہ جن کو یار ہو جائے میسر بیٹھ جاتے ہیں
ہمیں کو شام نے تنہا رکھا ورنہ یہ وہ پل ہیں
کہ دن اور رات بھی ملنے افق پر بیٹھ جاتے ہیں
اے آوارہ خیالو اشک باری میں تو رک جاؤ
پرندے بھی تو بارش میں سمٹ کر بیٹھ جاتے ہیں
ہمارا اور ان کا ربط ہے بس حاضری تک ہی
وہ رسماً نام لیتے ہیں ہم اٹھ کر بیٹھ جاتے ہیں
بڑے چرچے ہیں عالمؔ آپ کی خانہ خرابی کے
خدا کا شکر ہے مقطع میں آ کر بیٹھ جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.