نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
نہ پوچھو جان پر کیا کچھ گزرتی ہے غم دل سے
قرار آنا کہاں کا سانس بھی آتی ہے مشکل سے
بہ ہر صورت سفینہ ڈوب جاتا ہے محبت کا
کبھی ٹکرا کے طوفاں سے کبھی ٹکرا کے ساحل سے
اسے کہتے ہیں محرومی اسے کہتے ہیں ناکامی
سر منزل پہنچ کر بھی ہوں اب تک دور منزل سے
دل بے تاب پاتا ہے سکوں کب جوش الفت میں
یہ دریا موجزن ہو ہو کے ٹکراتا ہے ساحل سے
یہاں تک رفتہ رفتہ بڑھ گیا احساس محرومی
انہیں دیکھا مگر تشنہ نظر اٹھا ہوں محفل سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.