نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
تشریح
نکتہ دانان رفتہ کی نہ کہو
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
میر کے اس شعر نے ان حضرات کو چونکایا ہوگا جن کی نظر میں باغیانہ روش ہے۔ گویا سوال کرنا اور روایت کو نگاہ کم سے دیکھنا میر کے تخلیقی مزاج کے خلاف ہے۔ تخلیقی مزاج کا بہت گہرا رشتہ تصور کائنات سے ہے۔ جس غزل کا یہ شعر ہے اس کے چار اشعار کسی نہ کسی طور پر مندرجہ بالا شعر کو فکری اعتبار سے تقویت پہنچاتے ہیں۔
اب تو چپ لگ گئی ہے حیرت سے
پھر کھلے گی زبان جب کی بات
کس کا روے سخن نہیں ہے ادھر
ہے نظر میں ہماری سب کی بات
ظلم ہے قہر ہے قیامت ہے
غصے میں اس کے زیر لب کی بات
گو تو آتش زباں تھے آگے میر
اب کی کہئے گئی وہ تب کی بات
میر کے نکتہ دانان رفتہ والے شعر کی آگہی کا سفر کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ایک زمانہ دوسرے زمانے کو عبور کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ تبدیلیوں کے باوجود گزرے ہوئے زمانے کے سایے نئے زمانے پر لہراتے رہتے ہیں۔ میر کا نکتہ دانان رفتہ کو یوں رد کرنا کتنا حیران کرتا ہے۔ یہ حیرانی تو غالب کی شاعری سے مخصوص سمجھی جاتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے بہت سی باتیں کرتے ہوئے غصے کے عالم میں نکتہ دانان رفتہ سے برأت کا اعلان کر دیا گیا ہو اور فطری طور پر اس آگہی کی تشکیل میں دیگر آگاہیوں کا اہم کردار ہوگا۔ ایک آگہی دوسری آگہی کو جب رد کرتی ہے تو کچھ نہ کچھ اس سے حاصل بھی کرتی ہے۔ یہ آگہی ایک معنی میں وہ معنی نہیں ہے جو دوسرے معنی کو کاٹتی ہوئی آگے بڑھ جاتی ہے۔ معنی اور آگہی کے درمیان میر کے یہاں جو رشتہ ہے اس کی پہچان ابھی پوری طرح نہیں ہو سکی ہے۔ آگہی اگر معنی نہیں ہے تو اسی میں اس کی طاقت کا راز پوشیدہ ہے۔ میر کا یہ شعر معنی سے کہیں زیادہ آگہی کی طاقت کو سامنے لاتا ہے۔ یہ کوئی اکتشاف کا رویہ تو نہیں جسے حامدی کاشمیری نے اکتشافی تنقید کے نام سے اولا ناصر کاظمی کے مطالعے میں بروئے کار لایا تھا۔ یعنی بہت سی باتیں کہتے ہوئے اچانک کسی بات کا انکشاف ہو جائے۔ اگر میر کا یہ شعر کسی وقتی جبر کا نتیجہ ہے تو اس سے ایک پہلو یہ سامنے آتا ہے کہ مستقل طور پر متکلم نکتہ دانان رفتہ کے خلاف نہیں ہے۔ میں نے جس غصے کا اظہار کیا ہے وہ غصہ شعر میں دبا دبا سا ہے لیکن اندر اندر اتھل پتھل بہت ہے۔
'کی نہ کہو' سے کس غم و غصے کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے کوئی پہلے سے نکتہ دانان رفتہ کا ذکر کر رہا ہو یا کرنا چاہتا ہو اور سننے والا بھرا بیٹھا ہو۔ یہ خطاب اپنی ذات سے بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی خود متکلم ذہنی طور پر تیار ہو رہا ہے کہ نکتہ دانان رفتہ کی بات تو بہت ہو چکی اب اپنے وقت کو دیکھنا ہے یا اپنے وقت کے ساتھ ہونا ہے۔ یہ جو وقت کے ساتھ ہونا ہے روایت کے تصور کو سیال بنا دیتا ہے۔ یعنی وہ روایت روایت ہو ہی نہیں سکتی جو کسی مقام پر ٹھہر گئی ہو۔ اسی سے نئی شعریات کو ابھرنے کا موقع ملتا ہے اور نئی شعریات پرانی شعریات سے کوئی نہ کوئی رشتہ تو رکھتی ہے۔ میر کا مقطع بھی اس خیال کو تقویت پہنچاتا ہے۔ یعنی میر کی آتش زبانی گئے دنوں کا قصہ ہے۔ موجودہ صورت حال بتاو۔ اب زبان اور لسان کا کیا عالم ہے۔
نکتہ دانان رفتہ کی بو کا آنا اپنے وقت سے گریز اختیار کرنا ہے اور یہ غیر اخلاقی عمل بھی ہے۔ اب کی بات میں اپنے وقت کا کتنا احترام ہے اور اپنے دور سے کتنی گہری وابستگی کا اظہار ہوتا ہے۔ یوں دیکھیں تو نکتہ دانان رفتہ عام انسانی ذہن تو نہیں ہے۔ یہ چاہے جتنا بھی پرانا ہو وہ بہر حال نکتہ رسی کا اور نکتہ دانی کا اہم حوالہ بنا رہے گا۔ میر کی اب کی بات میں نکتہ رسی ہے یا نہیں اس بارے میں بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اب کی بات جیسی بھی ہو وہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔ کسی ترقی پسند شاعر نے اگر اس پہلو سے غور کیا ہوتا تو اس میں وہ فلسفہ نظر آتا جس پر مارکس نے بہت زور دیا تھا۔ اور مادہ ایک معنی میں اپنے وقت کی طرح تھا یا وقت کے ساتھ ہونے کا اعلان تھا۔
میر کا یہ شعر جس میر کو سامنے لاتا ہے اس سے عام طور پر شناسائی نہیں ہے۔
سرورالہدیٰ
- کتاب : MIRIYAAT - Diwan No- 1, Ghazal No- 0186
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.