سر ایذا رسانی چل رہی ہے
سر ایذا رسانی چل رہی ہے
طبیعت میں گرانی چل رہی ہے
اسی دل کے ہزاروں وسوسوں میں
وہی دھڑکن پرانی چل رہی ہے
چلا جاتا ہے ہر اک چل چلاؤ
جو شے ہے آنی جانی چل رہی ہے
میں برگ خشک ہوں ہم راہ میرے
ہوا کی بد گمانی چل رہی ہے
بدن میں سانس کی صورت یقیناً
کوئی نقل مکانی چل رہی ہے
بہت ہی مختصر سی زندگی میں
بڑی لمبی کہانی چل رہی ہے
ابھی وہ ساتھ ہے میرے سو مجھ پر
خدا کی مہربانی چل رہی ہے
سبھی کردار تھک کر سو گئے ہیں
مگر اب تک کہانی چل رہی ہے
خیال آتا تھا اس کا جس روش پر
اب اس پر بے خیالی چل رہی ہے
- کتاب : namood (Pg. 207)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.