شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی
شکستہ پا ہی سہی دور کی صدا ہی سہی
بکھر گیا جو ہوا سے وہ نقش پا ہی سہی
یہ حکم ہے کہ گئے موسموں کو یاد کروں
نئی رتوں کا تجسس مجھے ملا ہی سہی
زمیں کے بعد ابھی آسماں کے دکھ بھی سہوں
مرے لیے یہ سزا ہے بڑی عطا ہی سہی
چراغ کہہ کے مرا نور مجھ سے چھین لیا
چراغ پھر بھی رہوں گا بجھا ہوا ہی سہی
سجا لیے ہیں مصائب کے نیر آنکھوں میں
سکوں کی نیند نہیں ہے تو رتجگا ہی سہی
اے دھڑکنوں کو نیا نور بخشنے والے
میں نور سے ہی تہی تو مری خطا ہی سہی
حقیقتوں کے بدن پر کوئی لبادہ نہیں
اگر یہ سچ کی سزا ہے تو پھر سزا ہی سہی
یہ دل کا کرب لبوں تک کبھی نہ آئے گا
مرے لیے یہ خموشی کا ارتقا ہی سہی
جہاں کے درد کو انوارؔ نے سمیٹ لیا
میں اک خوشی کی تمنا میں مر مٹا ہی سہی
- کتاب : Pakistani Adab (Pg. 364)
- Author : Dr. Rashid Amjad
- مطبع : Pakistan Academy of Letters, Islambad, Pakistan (2009)
- اشاعت : 2009
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.