طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
طریق کوئی نہ آیا مجھے زمانے کا
کہ ایک سودا رہا جنس دل لٹانے کا
فریب خواب مرے راستے کو روک نہیں
کہ وقت شام ہے یہ غم کدے کو جانے کا
ترے وجود سے پہچان مجھ کو اپنی تھی
ترا یقین تھا مجھ کو یقیں زمانے کا
خراب عشق ہوں خود موت ہوں میں اپنے لیے
سکھا رہی ہوں ہنر خود کو دل جلانے کا
ہر ایک شاخ ستم سے میں پھول توڑتی ہوں
ہوا ہے شوق چمن زار غم بنانے کا
نشہ عجیب ہے اس جنگ بے ثمر کا مجھے
خمار خوب ہے خون خرد بہانے کا
شب وصال میں اک نقطۂ توقف ہوں
اور اک جنوں ہے اسے منزلوں کو پانے کا
دل تباہ کو بے دام بیچ دیتی ہوں
کہ کاروبار ہے یہ جنس غم کمانے کا
مجھے عزیز ہے بے احتیاطیٔ سادہ
نہ شوق ہے نہ ہنر اس کو آزمانے کا
قفس بدن کا مجھے کچھ مرا ثبوت نہیں
یہ طائر دل و جاں لوٹ کر نہ آنے کا
- کتاب : siip-volume-47 (Pg. 53)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.