Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

میر تقی میر

تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

میر تقی میر

MORE BYمیر تقی میر

    تھا مستعار حسن سے اس کے جو نور تھا

    خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

    تشریح

    بلاشبہ یہ شعر حمدیہ ہے گرچہ یہ میر کی ایک غزل کا مطلع ہے ۔ سرسری طور پر اس شعر کا مفہوم اس قدر ابھرتا ہے کہ جو کچھ ضوفشانی ہے وہ سب خدا کے حسن سے مستعار ہے ، یہاں تک کی سورج کی روشنی بھی خدا کے حسن سے قائم ہے ۔

    مگر بات محض اتنی نہیں ہے ۔ اس شعر میں تھا ، تھا ردیف وارد ہؤا ہے جو مطلقاً ماضی کہ طرف اشارہ کرتا ہے مگر ہم نے جو مفہوم اس شعر کا بیان کیا ہے وہ حالیہ لب ولہجے میں ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ردیف ہی ایسا ہے سو یہ تنگنائے غزل کا‌ معاملہ ہے مگر بات یہ ہے کہ یہ تو مطلعے کا شعر ہے، میر کے لیے کیا مشکل تھا کہ وہ اسے ہے، ہے میں بدل دیتے ۔.؟ لیکن بات صرف ردیف تک نہیں ہے، دھیان دیں تو میر نے یہ شعر تھا سے ہی شروع کیا ہے ۔ تھوڑی دیر کیلئے اس شعر میں وارد سارے تھا کو ہے سے بدل دیں تو شعر کچھ یوں ہوگا۔

    ہے مستعار حسن سے اس کے جو نور ہے

    خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور ہے۔

    اب دونوں شعر پڑھیں تو تبدیل شدہ شعر انتہائی پھیکا سا محسوس ہوگا ۔ کیونکہ حالیہ لب ولہجے میں رپورٹنگ کی بو آتی ہے اؤر کوئی بھی تخلیقی ادب ، ادب ہو ہی نہیں سکتا اگر وہ محض رپورٹنگ ہو کر رہ جائے ۔ اس کے علاوہ دوسری بات یہ ہے کہ تھا ، تھا سے شعر کے حسن میں اضافہ ہوگیا ہے وہ یوں کہ ہے کے مقابلے میں تھا میں حسی دلچسپی کا عنوان زیادہ ہے ۔ اس کو یوں کہیں کہ کہانی کا بیانیہ (محمد حسن کی زبان میں کہانیہ) کبھی ہے سے شروع نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے بھی محض یہی حسی حسن ہے جو دلچسپی کا زبردست عنصر ہے ۔ اس بات کی تائید ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب اردو شاعری کا فنی ارتقاء میں شامل مسعود حسین خان کا ایک مضمون غزل کا فن سے بھی ہوتی ہے ، جس میں قافیہ و ردیف کے حسی حسن پر کافی دلچسپ گفتگو ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ مفہوم وہی ہوگا جو اوپر درج ہے مگر تھا کے ذریعے آپ کے حس کو تحریک دی گئی ہے ۔

    اس شعر کا بنیادی محور حسن ہے ۔ پہلا سوال تو یہی بنتا ہے کہ حسن کیا ہے ۔؟ جواباً کہہ سکتے ہیں کہ حِسی معیار ہے جس کا تعیّن عموماً بصری وسیلے سے ہوتا ہے مگر یہ بات بھی کچھ معروضی نہیں ۔ ایک مفہوم ہے جو معنوی ہے مگر وہ اؤر غیر معروضی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ حسن بیشتر اسی سے وابستہ ہے ۔ حسی وسایل سے تو کسی قدر حسن کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر معنوی وسایل‌ سے اؤر مشکل ہے کیونکہ یہ مابعد الطبیعیات کا حصہ ہے۔ ان دونوں وسایل کا معاملہ یہ ہے کہ ہر شخص کا حسن ، اندازہ حسن اؤر معیار حسن سب الگ ہوگا ، اسی لیے معروضیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بالآخر تھک ہار کر آپ کو وہی بات قبول کرنی ہوگی کہ حسن ناظر اؤر منظور کے درمیان کا معاملہ ہے ، ناظر صرف عارف ہو سکتا ہے اؤر وہ بھی شاید مکمل نہیں ۔ یہی وہ گوشہ ہے جس سے اس شعر میں تصوف کا پہلو باہر آتا ہے ۔ ایک بات تو صاف ہے کہ حسن کچھ بھی ہو مگر ایک ایسی چیز ہے جو آپ کو اپنے گرفت میں لے لیتی ہے ، آپ اس سے نظر ہٹا نہیں سکتے یا اس سے نظر ملا نہیں سکتے ۔ اس شعر سے جو حسن کا قالب ابھرتا ہے اس میں چمک ، شفافیت ، خیرہ کنی ، روشنی سب کچھ شامل ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں نور کے مستعار ہونے کا جواز فراہم ہوجاتا ہے۔

    نور ، ظلمت کی ضد ہے ۔ روشنی جو کہ تاریکی کا مد مقابل ہے ۔ اگر یہاں اللہ نور السماوت والارض کو ساتھ ملا کر مفہوم کشید کیا جائے تو نور کو سمجھنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا ۔ بایں طرح نور بمعنی نور والا ہوگا کیونکہ روشنی کے انتہائی قوت کے اظہار کے لیے نور والے کو نور کہہ دیا جاتا ہے ۔ یہ معنی اس لیے مناسب ہے کہ اسی سیاق میں آگے خورشید بھی آیا ہؤا ہے جو نہ کہ روشنی کی انتہائی قوت کا مظہر ہے بلکہ روشنی والا بھی ہے ۔

    عاریۃً یا ادھار لی ہوئی کسی بھی چیز کو مستعار کہہ سکتے ہیں ۔ استعارے کو استعارہ اسی لیے کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں کسی نہ کسی لفظ سے معنی ادھار لیے جاتے ہیں ۔مثلاً کسی کو بہادر بتانے کے لیے شیر کو ، اور کسی کو خوبصورت بتانے کے لیے چاند کو مستعار لے لیا جاتا ہے ۔ مفہوم یہ ہؤا کہ جو کچھ بھی روشنی ہے سب قرض پر ہے حتی کہ سورج کہ بھی جس کے پاس نہ صرف روشنی ہے بلکہ روشنی پھیلانے والا بھی ہے ۔ لفظ مستعار سے ایک لطیف اشارہ یہ بھی ہے کہ یہ نور آپ کے پاس جب تک ہے جب تک دینے والا واپس نہیں لے لیتا ۔ یہ روشنی کا سارا کاروبار ایک تقاضے تک قائم ہے جس دن تقاضا ہؤا سب کچھ ختم ہوجائے گا ۔

    حسن ، خورشید، ذرہ اؤر ظہور سے غضب کا لفظی دروبست قائم کیا گیا ہے ۔ حسن ایک کل ہوا ، ذرہ ایک جز اؤر دونوں کی ترکیب سے منطقی زبان میں ایک طرح کا عموم خصوص من وجہ قائم ہؤا ۔ اب دیکھیے کہ خورشید جو بذات خود ایک بہت بڑے روشنی کا منبع ہے اس کو نگیٹ کرکے اس کی روشنی کی وجہ خدا کے حسن کے ایک ذرے کو بتایا ۔ خورشید میں بھی کہہ کر اگر سورج کی روشنی اؤر اس کی عظمت کا اعتراف تھا تو وجہ نور خدا کے حسن کا ذرہ بتا کر اس کی عظمت کو بونا بھی دکھا دیا گیا ، مگر دونوں پہلوؤں کو جمع کرنے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ سورج کی اتنی زیادہ روشنی جب تک ہے جب تک اس میں حسن کا یہ معمولی ذرہ ظاہر ہے ۔ ظہور اپنے آپ میں یہ مفہوم لیے ہوئے ہے کہ یہ ذرہ کہیں اِدھر اُدھر، اوپر نیچے، دائیں بائیں سے نہیں شامل ہے بلکہ اس کے اندر تہہ میں شامل ہے اؤر وہیں سے نمودار ہو رہا ہے ۔

    درج بالا سطور میں تصوف کے ایک گوشے کا ذکر ہوا ہے ۔ حسن ، نور اؤر ظہور کے پیکر سے ابھرنے والے معنوی مفہوم میں تصوف کا وہ نقش صاف طور پر دیکھا جا سکتا ہے جو متصوفانہ اعتقادات کے حساب سے سب کچھ عکس ہے اور ظاہر ہے عکس کے لیے چمک، روشنی اؤر کسی منبع سے اس کا نمایاں ہونا ضروری ہے ۔ خواہ ظاہری ہو معنوی حسن کے اندر ایک طرح کی چمک شفافیت ، نور کے اندر روشنی ، اجالا اؤر ظہور کے اندر ایک طرح کی نموداری موجود ہے ۔

    سوال یہ بھی ہے کہ میر کا یہ شعر محبوب حقیقی ہی کے مفہوم کے اردگرد کیوں سمجھا جائے ، محبوب مجازی بھی تو ہوسکتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے ہو سکتا ہے ۔؟ جواباً آپ کہہ سکتے ہیں کہ اُس ضمیر کا مرجع آپ محبوب مجازی کو بنائیں ۔ تو جواب الجواب یہ ہوگا کہ اُس اشارہ بعید کے لیے ہے جو کہ آپ کے محبوب مجازی کے لیے نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کسی طور محبوب حقیقی سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہوسکتا ۔ تو پھر آپ کہیں گے کہ اگر معاملہ قریب اؤر بعید کا ہے تو ضروری ہے کہ اُس پڑھیں، اِس بھی تو پڑھ سکتے ہیں ۔ لیکن ایسی صورت میں شعر کا اگر کوئی مفہوم نکلے گا تو وہ محض مبالغے کا ہوگا مگر پھر بھی بات نہیں بنے گی ، وہ اس لیے کہ دوسرے مصرعے میں واقع اس ہی کا کا کیا جواب دیں گے ۔ یہ باقاعدہ حصر پیدا کرنے کے لیے لایا گیا ہے جو بتا رہا ہے کہ اُس ضمیر کا مرجع محبوب حقیقی کے سواء کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا ہے۔

    میر کا اسی مفہوم میں ایک اؤر شعر جو بات کو مزید واضح کر دے گا۔

    اس کے فروغ حسن سے جھمکے ہیں سب میں نور

    شمع حرم ہو یا کہ دیا سومنات کا

    ذرا سوچئے محبوب مجازی کو شمع حرم اؤر سومنات کے دیے سے کیا علاقہ۔؟ اسی طرح اگر محض محبوب مجازی کے حسن کی بات ہے تو اس کے لیے موزوں ترین شئی چاند ہے نہ کہ سورج۔

    خیر آخری بات جسے فاروقی صاحب نے ثابت کرنے کے لیے جی جان‌ لگا دی ہے کہ میر محض سوز گداز کے شاعر نہیں بلکہ شورانگیز شاعر بھی تھے ، اس شعر کے بنت میں اُس شور‌‌ کی مکمل جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

    سیف ازہر

    موضوعات

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے