طلسم عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک
طلسم عشق تھا سب اس کا ساتھ ہونے تک
خیال درد نہ آیا نجات ہونے تک
ملا تھا ہجر کے رستے میں صبح کی مانند
بچھڑ گیا تھا مسافر سے رات ہونے تک
عجیب رنگ یہ بستی ہے اس کی نگری بھی
ہر ایک نہر کو دیکھا فرات ہونے تک
وہ اس کمال سے کھیلا تھا عشق کی بازی
میں اپنی فتح سمجھتا تھا مات ہونے تک
ہے استعارہ غزل اس سے بات کرنے کا
یہی وسیلہ ہے اب اس سے بات ہونے تک
میں اس کو بھولنا چاہوں تو کیا کروں عادلؔ
جو مجھ میں زندہ ہے خود میری ذات ہونے تک
- کتاب : Ghazal Calendar-2015 (Pg. 25.03.2015)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.