ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تشریح
معشوق کو اس کے منہ پر جھوٹا کہہ دینا غالب کا ہی کام تھا۔ اردو غزل کے عاشق کی تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ معشوق اس سے کوئی وعدہ کرے۔ یہ وعدہ وصل کا بھی ہو سکتا ہے، ظلم و ستم سے توبہ کا بھی یا کسی نوازش کا بھی۔ وہ ان میں وعدوں سے بہل جاتا ہے اور اگر ایک وعدہ پورا نہیں ہوتا تو کسی دوسرے وعدے کے پورا ہونے کی امید پر جیتا رہتا ہے۔ لیکن غالبؔ نے صاف کہہ دیا کہ محترمہ آپ مجھ سے جو وعدے کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ میں دوسرے احمق عاشقوں کی طرح ان پر یقین کر کے ان کے پورا ہونے کی امید میں جی رہا ہوں تو اپنی یہ خوش فہمی دور کر لیجیے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے کسی وعدے پر کبھی یقین ہی نہیں کیا۔ معشوق کو اتنا بڑا اعصابی جھٹکا دینے کے بعد وہ اسے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی محبت دوسرے عاشقوں سے کتنی مختلف اور کتنی شدید ہے۔ وہ اس کو بتاتے ہیں کہ اگر انہیں اس کے کسی وعدے پر یقین ہو جاتا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہتی اور شاید وہ اتنی بڑی خوشی برداشت ہی نہ کر پاتے اور مرجاتے۔ محبت کی شدت کا یہ اظہار بھی نرالا ہے جس میں غزل کے معشوق کی روایتی وعدہ خلافیوں کا شکوہ پس پشت چلا جاتا ہے اور عاشق کی انفرادیت اور اس کے شدت عشق کا پہلو ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ غالبؔ روایتی غزل کے مضامین کو گِھسے پٹے انداز میں اپنے اشعار میں دہرانے کو اپنے لیے باعثِ شرم سمجھتے تھے۔ وہ جب بھی کسی ایسے مضمون کو ہاتھ لگاتے تھے تو اس میں کوئی ایسا نیا پن ڈال دیتے تھے کہ سننے والے کو محسوس ہوتا تھا کہ اس نے اس سے پہلے اس طرح کی بات کبھی نہیں سنی۔
’’خوشی سے مر نہ جاتے‘‘
میں معنی کا اک اور پہلو بھی ہے۔ یعنی اگر ہم کو وعدہ پر اعتبار ہوتا تو ہم خوشی خوشی، اپنی رضامندی سے مر جانا پسند کرتے۔ یہ معنی اس وقت کارگر ہوں گے جب فرض کر لیا جائے کہ معشوق نے مرنے کے بعد دوسری دنیا میں ملنے کا وعدہ کیا ہے۔
محمد اعظم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.