اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا
اٹھا کے میرے ذہن سے شباب کوئی لے گیا
اندھیرے چیختے ہیں آفتاب کوئی لے گیا
میں سارے کاغذات لے کے دیکھتا ہی رہ گیا
ثواب کوئی لے گیا عذاب کوئی لے گیا
سپرد کر کے خامشی کی مہر خوش نما مجھے
لبوں سے نعرہ ہائے انقلاب کوئی لے گیا
ہے اعتراف میرے ہاتھ میں جو ایک چیز تھی
سنبھال کر رکھا تو تھا جناب کوئی لے گیا
یہ غم نہیں کہ مجھ کو جاگنا پڑا ہے عمر بھر
یہ رنج ہے کہ میرے سارے خواب کوئی لے گیا
شجر شجر ورق ورق پیام بر وہاں بھی ہے
جہاں سے ہر صحیفہ ہر کتاب کوئی لے گیا
شناخت ہو سکی نہ پھر بھی یہ مرا قصور تھا
ہمارے درمیاں تھا جو حجاب کوئی لے گیا
- کتاب : Sarhane Ka Charagh (Pg. 143)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.