وصل و ہجراں دو جو منزل ہیں یہ راہ عشق میں (ردیف .. ا)
وصل و ہجراں دو جو منزل ہیں یہ راہ عشق میں
دل غریب ان میں خدا جانے کہاں مارا گیا
تشریح
شعر کا ابہام قابل داد ہے۔ یہ واضح نہیں کیا کہ دل وصل سے ہجر کی طرف جارہا تھا یا ہجر سے وصل کی طرف، یا ایک کشاکش تھی، کبھی ہجر تو کبھی وصال۔ ہجر کو راہ عشق کی ایک منزل کہنا بھی بہت خوب ہے۔ ’’مارا گیا‘‘ میں یہ بھی اشارہ ہے کہ راہزنوں کے ہاتھ مارا گیا، یا اپنی ہی طاقت کم ہوجانے کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ یعنی موت یا تو کشاکش کے باعث تھی یا راہزن کی چیرہ دستی کے باعث، یا سفر کی طوالت کے باعث۔ ’’غریب‘‘ بمعنی ’’مسافر‘‘ بھی ہے اور بہ معنی ’’بیچارہ‘‘ بھی غیر مناسب نہیں، کیونکہ اجنبی یا مسافر بہرحال بے چارہ ہوتا ہے۔ پھر وہ موت بھی کس قدر بے کسی کی موت ہوگی جس کے بارے میں یہ بھی معلوم نہ ہوکہ کہاں واقع ہوئی۔ لہجہ محزوں لیکن باوقار ہے اور بیان میں واقعیت، کیوں کہ میر کے زمانے میں سفر میں جان کا خطرہ ہمیشہ رہتا تھا۔ ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے عین وصل یا عین ہجر میں موت واقع ہوئی ہو لیکن ازخودرفتگی کے باعث معلوم ہی نہ ہوسکا ہو کہ موت کہاں ہوئی۔ کسی واقعے کا یوں بیان کرنا گویا دو شخص اس پر تبادلۂ خیال کر رہے ہیں، یا ایک شخص دوسرے کو اس کے بارے میں بتا رہا ہے، میر کا خاص انداز ہے۔ اس مضمون کو کم شدید انداز میں یوں ظاہر کیا ہے؎
ہے پیچ دار ازبس راہ وصال و ہجراں
ان دو ہی منزلوں میں برسوں سفر کرو
(دیوان اوّل)
شمس الرحمن فاروقی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.