وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں
وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں
پھر آندھیوں کے لئے اک دیا جلاؤں میں
پھر اپنی یاد کی پروائیاں بھی قید کرے
وہ چاہتا ہے اگر اس کو بھول جاؤں میں
اداس آنکھوں کو سوغات دے کے اشکوں کی
یہ اس نے خوب کہا ہے کہ مسکراؤں میں
میاں یہ زیست کی سچائیوں کے قصے ہیں
کوئی فسانہ نہیں ہے جسے سناؤں میں
فساد، قتل، تعصب، فریب، مکاری
سفید پوشوں کی باتیں ہیں کیا بتاؤں میں
اسی کو کہتے ہیں معراج کیا محبت کی
وہ یاد آئے تو پھر خود کو بھول جاؤں میں
جمال یار پہ غزلیں تو ہو چکی ہیں بہت
یہ سوچتا ہوں اسے آئینہ دکھاؤں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.