یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے
نہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے
زمین دی ہے کھلی دھوپ دی ہوا دی ہے
بہ نام زندگی کیسی کڑی سزا دی ہے
میں اپنے آپ سے کیا پوچھتا ہوں رہ رہ کر
یہ کیوں لگے کہ کسی نے مجھے صدا دی ہے
ترا ہی روپ کوئی تھا یہاں جب آیا تھا
یہ دیکھ وقت نے اب شکل کیا بنا دی ہے
دعا سلام تو تھی رسم ربط سے تھی مراد
سو میرے شہر نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے
فقط صدا ہی سنو کیوں نظر نہ آئے گی
کہ اب تو بیچ کی دیوار بھی گرا دی ہے
تمام عمر نہ اس کو کسی نے پہچانا
جو اس کے منہ پہ تھی چادر وہ کیوں ہٹا دی ہے
یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ
زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.