یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
دلچسپ معلومات
یہ غزل رسالہ عالمگیر میں 1943میں شائع ہوئی ۔اس غزل کے تیسرے چوتھے اور پانچویں شعر مہدی حسن نے فراز کی غزل میں شامل کر لیا ۔آل انڈیا ریڈیو سے یہ اشعار سن کر طالب باغپتی نے اپنے دوست برنی صاحب کو ایک خط لکھ کے بتایا کہ یہ ان کے اشعار ہیں جو 1943 میں عالمگیر اور خیام میں شائع ہو چکے ہیں ۔
یوں بھی ترا احسان ہے آنے کے لیے آ
اے دوست کسی روز نہ جانے کے لیے آ
ہر چند نہیں شوق کو یارائے تماشا
خود کو نہ سہی مجھ کو دکھانے کے لیے آ
یہ عمر، یہ برسات، یہ بھیگی ہوئی راتیں
ان راتوں کو افسانہ بنانے کے لیے آ
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی بہانے سے نہ جانے کے لیے آ
مانا کہ محبت کا چھپانا ہے محبت
چپکے سے کسی روز جتانے کے لیے آ
تقدیر بھی مجبور ہے، تدبیر بھی مجبور
اس کہنہ عقیدے کو مٹانے کے لیے آ
عارض پہ شفق، دامن مژگاں میں ستارے
یوں عشق کی توقیر بڑھانے کے لیے آ
طالبؔ کو یہ کیا علم، کرم ہے کہ ستم ہے
جانے کے لیے روٹھ، منانے کے لیے آ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.