یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
تشریح
یہ شعر غالب کے مقبولِ عام اشعار میں سے ایک ہے۔ غالب نے گریے پر بہت اعلیٰ مضامین پیدا کئے ہیں۔ جیسے یہ کمال کا شعر مثال کے طور پر لیجیے؎
وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا وہ رنگ
کہ ہوگئے مرے دیوار و در درو دیوار
زیرِ نظر شعر میں غالب اپنے گریے کی تاثیر کے بارے میں دعویٰ کرتے ہیں۔ اس شعرمیں ’’یوں ہی گر روتا رہا‘‘ بہت معنی خیز ہے۔ یوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفورِ اشک والا معاملہ ہے۔ یعنی آنکھوں سے بڑی مقدار میں آنسو جاری ہو رہے ہیں۔ یہ تو معاملہ گریہ کا ہے۔ اس کے اسباب بہت ہوسکتے ہیں۔ جیسے یہ کہ محبوب سے جدائی کے غم میں آنسو بہائے جارہے ہیں یا یہ کہ محبوب کی بے اعتنائی اس گریہ کا سبب ہے یا پھر یہ کہ غمِ روزگار کی وجہ سے غالب گریہ کررہے ہیں۔ مگر چونکہ غالب اہلِ جہاں سے مخاطب ہیں اس لئے غالب گمان یہ ہوتا ہے کہ ان کے یعنی غالب کے گریہ کی وجہ دنیا والوں کی بے اعتنائی ہے۔ اسی بنا پر غالب ان کو متنبہ کرتے ہیں کہ اگر میرا گریہ اسی طرح جاری رہا تو جو بستیاں تم دیکھ رہے ہو اور جن بستیوں میں تم رہتے ہو وہ میرے آنسوؤں میں ڈوب جائیں گی۔ وفورِ اشک والے شعر میں معاملہ غالب کے خود کے گھر تک محدود ہے جبکہ زیرِ نظر شعر میں یہ معاملہ بستیوں کی ویرانی تک پہنچ جاتا ہے۔
شفق سوپوری
- کتاب : Deewan-e-Ghalib Jadeed (Al-Maroof Ba Nuskha-e-Hameedia) (Pg. 283)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.