ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
ذرا اشارہ ہوا آسماں کے اندر سے
دعا پہنچ بھی گئی خاکداں کے اندر سے
کہانی پھیل رہی ہے اسی کے چاروں طرف
نکالنا تھا جسے داستاں کے اندر سے
مجھے پڑاؤ میں خطرہ سفر سے بڑھ کر ہے
کہ راہزن ہے مرے کارواں کے اندر سے
تو مجھ میں آ کے مکیں ہو گیا تو ہر آسیب
نکل گیا ہے مرے جسم و جاں کے اندر سے
میں صرف دیکھنے آیا ہوں رونق بازار
غرض نہیں ہے کسی بھی دکاں کے اندر سے
نئے سرے سے بنانا پڑا ہے اب خود کو
تلاش کر کے مجھے رائیگاں کے اندر سے
ترے خلاف گواہی جو بن گئے ہیں وہ لفظ
لئے گئے ہیں ترے ہی بیاں کے اندر سے
میں درمیاں ہوں الاؤ کے اور مری آواز
تو سن رہا ہے اسی درمیاں کے اندر سے
لگا رہا تو کسی دن کشید کر لوں گا
نئی زبان پرانی زباں کے اندر سے
ابھی تو یہ در و دیوار جانتے ہیں مجھے
ابھی تو میں نہیں نکلا مکاں کے اندر سے
ظہیرؔ پار اترنے کا فیصلہ جو کیا
کنارہ مل گیا آب رواں کے اندر سے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.