زندگی تیرے عجب ٹھور ٹھکانے نکلے
پتھروں میں تری تقدیر کے دانے نکلے
درد ٹیس اور جلن سے ہیں ابھی ناواقف
زخم جو بچے ہتھیلی پہ اگانے نکلے
میں تو ہر شے کا خریدار ہوں لیکن وہ آج
اتنی جرأت کہ مرے دام لگانے نکلے
نئی تحقیق نے قطروں سے نکالے دریا
ہم نے دیکھا ہے کہ ذروں سے زمانے نکلے
تلخ جملوں کے کہاں تیر خطا ہو پائے
دیکھنے میں تو غلط اس کے نشانے نکلے
ذہن میں اجنبی سمتوں کے ہیں پیکر لیکن
دل کے آئینے میں سب عکس پرانے نکلے
دے نہ پایا وہ کوئی وعدہ خلافی کا جواز
مضمحل اس کے نہ آنے کے بہانے نکلے
میں تو خوشیوں کے اگاتا رہا پودے اکملؔ
اور ہر شاخ پہ زخموں کے خزانے نکلے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.