Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بازار

شمیم حنفی

بازار

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    آوازیں:

    (۱) ساجد۔۔۔ جذباتی لہجہ

    (۲) آسیہ۔۔۔ طنزیہ لہجہ

    (۳) سلیم چچا۔۔۔ بھاری آواز، مجنونانہ انداز

    (۴) سلطان

    (۵) سیما

    صوتی اثرات:

    (۱) بازار کاشور

    (۲) ٹرک کی آواز۔ بریک، ہارن

    (۳) مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ

    (۴) گھڑی کی ٹک ٹک

    (۵) موسیقی

    پانچ متفرق آوازیں۔۔۔ تین مردانہ آوازیں، دو نسوانی

    ابتدائی موسیقی۔ حزنیہ۔ فیڈ آؤٹ کے ساتھ ہی ملی جلی آوازوں کا شورابھرتا ہے۔ بازار کا تاثر۔۔۔ ہارن، مشینوں کی گھڑگھڑاہٹ۔ ٹرک کے انجن کی بھونڈی آواز، اچانک بریک لگتے ہیں۔

    (پس منظر سے ایک قہقہہ، مجنونانہ انداز)

    وقفہ

    ساجد: (ہانپتے ہوئے) آسیہ! سنا تم نے؟ یہ آواز۔۔۔ کب سے میرا پیچھا کر رہی ہے یہ آواز۔۔۔ پتا نہیں کس سمت سے آتی ہے اور نیزے کی انی کی طرح سینے میں اترجاتی ہے۔

    (دور سے، پھر وہی قہقہہ)

    ساجد: آ آ آسیہٍ! دددیکھو، دیکھو۔۔۔ پھر وہی آواز۔ یہ آواز میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتی۔ مم۔ میں، کیا کروں۔۔۔؟ بتاؤ۔۔۔ یہ کھڑکی۔۔۔ یہ روشن دان۔۔۔ دروازہ بند کرو۔۔۔ (ہانپنے لگتا ہے)

    آسیہ: (ساجد کو جھنجھوڑتے ہوئے) ساجد! پاگل ہوگئے ہو؟ مت ماری گئی ہے تمہاری؟ یہ سب کیا بکواس ہے۔۔۔؟ ڈرپوک کہیں کے۔۔۔ (ہنستی ہے)

    (دور سے، پھر وہی قہقہہ)

    ساجد: پاگل میں نہیں ہوں، تم ہو آسیہ۔ تم اور وہ اور وہ اور وہ۔ سب پاگل ہیں۔ کتنا فرق ہے تمہاری ہنسی اور اس قہقہے میں۔۔۔ لگتا ہے۔۔۔ لگتاہے۔

    آسیہ: کیا لگتا ہے؟

    ساجد: لگتا ہے قہقہہ نہیں، یہ رونے کی آواز ہے۔ قہقہہ نہیں، چیخ ہے۔

    آسیہ: اونہہ۔۔۔ ابھی تک اس گھر میں بس سلیم چچا دیوانے تھے۔ اب تمہارا دماغ بھی چل گیا ہے۔

    (سڑک سے گزرتے ہوئے ٹرک کا شور۔۔۔ اچانک بریک لگتے ہیں۔ مجنونانہ قہقہے کی آواز قریب آتی ہوئی)

    ساجد: (کپکپاتی ہوئی آواز میں) اُف، کہاں جاؤں؟ کیا کروں؟ وہ آواز اب کوئی دم میں اندر آئے گی اور سینے میں اترجائے گی۔۔۔ آسیہ! آسیہ! دروازہ بند کردو!

    (دروازہ بند ہونے کی آواز)

    آسیہ: لو! اب تو چین آگیا تمہیں؟ ساجد! میں سمجھ نہیں پاتی کہ تم اتنی نادانی کی بات کاہے کو کرتے ہو۔ تم سب کچھ جانتے ہو۔ تمہیں پتا ہے کہ یہ آواز سلیم چچا کی ہے اور سلیم چچا دیوانے ہیں۔

    (قدموں کی چاپ قریب آتی ہوئی۔ دروازے پر دستک)

    ساجد: کک کون؟ کون؟

    سلیم چچا: (باہر سے) آدمی کے دروازے پر آدمی ہی دستک دیتا ہے۔

    (آسیہ دروازہ کھول دیتی ہے۔ سلیم چچا اندر آتے ہیں)

    سلیم چچا: ارے۔۔۔ آسیہ، ساجد، تم دونوں کے چہروں پر ہوائیاں کیوں اڑ رہی ہیں۔

    آسیہ: بیٹھ جائیے چچا۔۔۔ بیٹھ جائیے۔ ان کا جی اچھا نہیں ہے۔

    (سلیم چچا کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتے ہیں)

    سلیم چچا: تم دونوں نے وہ آواز سنی تھی؟

    آسیہ: کون سی آواز؟

    سلیم چچا: ٹرک کے انجن کی۔۔۔ بے تحاشا دوڑتے بھاگتے آٹھ پہیوں والے اس بے ڈول جانور کی۔

    ساجد: جانور؟ کون سا جانور!

    سلیم چچا: جسے نیند نہیں آتی۔ جو آٹھوں پہر جاگتا رہتا ہے اور بھاگتا رہتا ہے۔ پتا نہیں۔ وہ کسی کاپیچھا کر رہا ہے، یا کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

    ساجد: ٹررک۔۔۔ کون۔۔۔ کس کا پیچھا کر رہا ہے۔۔۔؟ کب سے؟

    سلیم چچا: اور تم نے بریک لگنے کی آواز سنی تھی۔ اچھا ہے۔ بریک لگنا چاہیے۔ اب ضرور لگنا چاہیے۔ یہ تماشا ختم ہونا چاہیے۔ اب سب کو رک جانا چاہیے۔ لیکن۔

    ساجد: لل لیکن کیا؟

    سلیم چچا: (طنزیہ ہنسی) ٹرک سوچ نہیں سکتے۔ اس لیے رک نہیں سکتے۔ ٹرک آدمی نے اسی لیے بنایا تھا کہ وہ اس کے سکھ چین کی خاطر بھاگتا رہے۔ اب ٹرک بھاگ رہے ہیں اور ان کے آگے بھی آدمی ہے اور پیچھے بھی آدمی ہے۔ اور آگے بھی آدمی کی ہوس کا تماشا ہے اور پیچھے بھی آدمی کی ہوس کا تماشا ہے۔ اور یہ تماشا۔۔۔ ختم ہوتا نظر نہیں آتا۔

    آسیہ: (اکتاہٹ کے ساتھ) افوہ سلیم چچا! خدا کے لیے ایسی اداس کرنے والی باتیں نہ کیجیے۔۔۔ ان کا جی پہلے ہی اچھا نہیں ہے۔

    سلیم چچا: (اپنی رو میں) ٹرک بہت بدصورت ہوتے ہیں۔ ٹرک بہت بھوکے ہوتے ہیں۔ ٹرک بہت مضبوط ہوتے ہیں۔ ٹرک بہت لالچی ہوتے ہیں۔ ان کے شکم میں ہوس کاایندھن جلتا ہے اور ان کے آگے بھی ہوس ہے اور پیچھے بھی ہوس ہے۔

    آسیہ: (چیخ کر) سلیم چچا۔

    سلیم چچا: (اٹھتے ہوئے) اب میں چلتا ہوں۔ ساجد۔۔۔ آسیہ۔۔۔ کبھی سوچا ہے تم نے۔۔۔ ہر ٹرک کے پیچھے چار حرف لکھے ہوتے ہیں۔ ایس، ٹی، او، پی۔ (STOP) مطلب یہ کہ رک جاؤ۔۔۔ رک جاؤ۔۔۔ مگر پیچھے مڑ کر کون دیکھ سکتا ہے بھلا؟

    (اٹھ کرچلے جاتے ہیں۔ قدموں کی چاپ دور ہوتی ہوئی)

    فیڈ آؤٹ

    (موسیقی۔۔۔)

    فیڈ ان: گھڑی کی ٹک ٹک ٹک۔ شام کے پانچ بجتے ہیں۔

    سلطان: (اپنے آپ سے) ارے! پانچ بج گئے! سیما ابھی آئی نہیں۔

    (کال بیل بجتی ہے۔۔۔ سلطان کے قدموں کی چاپ۔ دروازہ کھلتا ہے)

    سلطان: بھئی واہ! ابھی ابھی میں نے سوچا تھا کہ تم کہاں رہ گئیں؟

    سیما: اللہ۔۔۔ آج تو جیسے قیامت کا سماں تھا سلطان!

    سلطان: کیوں؟ کیا ہوا؟

    سیما: بینک میں بھیڑ بہت تھی۔ خدا خدا کرکے وہاں سے نکلے۔ پالیکا بازار گئے۔ وہاں بھی بھیڑ بہت تھی۔

    سلطان: کیوں؟

    سیما: SALE لگی ہوئی ہے۔ کپڑوں کی۔۔۔ تمہارے لیے دو قمیصیں خریدیں۔ اپنے لیے ایک ساری۔۔۔ اور ا یک ساری سعیدہ کی سالگرہ میں دینے کے لیے۔

    سلطان: تو تم نے ساری خریداری آج ہی کرلی؟

    سیما: ہاں! تو اس میں حیرانی کا ہے کی؟ ارے بھائی SALE لگی ہوئی تھی۔

    سلطان: مم۔۔۔ مگر

    سیما: یہ اگر مگر کیا ہے؟

    سلطان: مہینہ کیسے چلے گا؟

    سیما: کیوں؟ جیسے ہمیشہ چلتا ہے!

    سلطان: تم یہ کیوں بھول رہی ہو کہ یہ مارچ کا مہینہ ہے۔

    سیما: تو کیا ہوا۔۔۔ ہر سال مارچ آتا ہے!

    سلطان: اور ہر سال ایسی ہی قیامت ڈھاتا ہے۔

    سیما: کیسی قیامت؟

    سلطان: اس مہینے میں مجھے کل اڑسٹھ روپے۔۔۔ ملے ہیں۔

    سیما: (حیرانی سے) ہائیں؟

    سلطان: (پرخیال انداز میں) ہوں!

    سیما: اب کیا ہوگا؟ مہینہ کیسے چلے گا؟

    سلطان: تم بھول رہی ہو سیما۔۔۔ دن اور مہینے نہیں چلتے۔ اصل میں ہم چلتے ہیں۔ وقت نہیں گزرتا ہم گزرتے ہیں۔ سو گزر جائیں گے۔

    سیما: فضول باتیں مت کرو۔ مجھے سوچنے دو۔

    سلطان: (اسی رو میں) تم نے صبح سویرے یا شام کو دیکھا ہوگا، ادھر اُدھر کولونی کی سڑکوں پر، کتے کی زنجیر ہاتھ میں تھامے، چہل قدمی کرتے ہوئے لوگوں کو۔۔۔ اوپر سے یہ لگتا ہے کہ کتے کو ٹہلایا جارہا ہے۔ جب کہ ہوتا یہ ہے کہ کتے لوگوں کو ٹہلاتے ہیں۔

    سیما: (زچ ہوکر) سلطان خدا کے لیے۔۔۔

    سلطان: (اسی لہجے میں) چاروں طرف SALE لگی ہوئی ہے۔ بیچنے اور خریدنے کا ایک اٹوٹ سلسلہ۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ کبھی یہ سوچا ہے کہ اصل میں بکتا کیا ہے؟ (ٹھہر کر) چیزیں نہیں بکتیں! ہم بکتے ہیں۔ جبھی تو دنوں کے ساتھ ہم ادھورے ہوتے جاتے ہیں۔

    سیما: سلطان!

    سلطان: چیزوں سے گھر بھرتے جاتے ہیں۔ ہم ہیں کہ اندر سے خالی ہوتے جاتے ہیں۔ اب یہی دیکھو کہ آج تم نے قمیصیں اور ساریاں خریدلیں۔۔۔ مگر اپنا سکون بیچ آئیں! ہر SALE میں یہی ہوتا ہے۔ سچ ہے۔۔۔ انسان خسارے میں ہے!

    سیما: (چیخ کر) تم اپنی بکواس بند کرتے ہو یا میں یہاں سے اٹھ جاؤں!

    سلطان: (نرمی سے) پریشان مت ہو سیما۔۔۔ اور سوچ لو کہ ہم بازار میں ہیں اور دکان پر سامان بھرا پڑا ہے۔ اور بیچنے خریدنے کا سلسلہ جاری ہے اور بیچی جانے والی چیزوں کے ساتھ خریدنے والا بھی بک رہا ہے۔

    (دہشت خیز موسیقی کی ایک لہر CHANGE OVER)

    ایک آواز(مردانہ): میں نریش ہوں۔ میں نے MBBS کیا ہے۔ میں اس شہر کے ایک بڑے اسپتال میں کام کرتا ہوں۔ میرے ساتھ میری ماں اور بابوجی رہتے ہیں۔ میری تنخواہ چار ہزار روپے ہے۔ اس میں ڈھائی ہزار ہر مہینے فلیٹ کا کرایہ نکل جاتا ہے۔ بابوجی کی پنشن سے مہینے بھر کااناج، سبزی اور دودھ نکل آتا ہے۔ باقی۔۔۔ بجلی کا بل، پانی کا بل، اسکوٹر کے لیے پٹرول کا خرچ۔۔۔ میرے ذمے۔ بس یوں چل رہی ہے گاڑی۔

    (پس منظر سے ٹرک کے انجن کا شور ابھرتا ہے پھر ڈوب جاتا ہے۔)

    دوسری آواز (مردانہ): ایک کمرے کی یہ برساتی۔۔۔ جو ہمارا بیڈروم بھی ہے اور ڈرائنگ روم بھی۔۔۔ ہمیں ڈیڑھ ہزار کرایے پر ملی ہے۔ میں پدمنا بھن اور میری بیوی ہیم وتی اور ہمارا بیٹا شانو یہاں رہتے ہیں۔ مجھے ہر مہینے تین ہزار ملتے ہیں۔ ہیم وتی کو دوہزار۔

    تیسری آواز (نسوانی): مگر۔۔۔ ہم چاہیں بھی تو روز ایک ناریل نہیں خریدسکتے۔

    تیسری آواز: ہم چاہیں بھی تو سنیما ہال میں جاکر فلم نہیں دیکھ سکتے۔ مہینے میں ایک بار بھی نہیں۔

    دوسری آواز: ٹکٹ کے دام۔۔۔ پھر سینما ہال تک آنے جانے کا خرچ۔ کچھ کھانا پینا۔۔۔ یہ سب ملاکر بہت ہوجاتا ہے۔۔۔ آؤٹنگ کا سارا مزا کرکرا ہوجاتا ہے۔

    تیسری آواز: بس کسی نہ کسی طرح گاڑی چل رہی ہے۔

    (پس منظر سے ٹرک کاشور۔ اچانک بریک لگتے ہیں۔ ہارن بجتے ہیں)

    فیڈ آؤٹ

    چوتھی آواز(مردانہ): میں شرما ہوں۔ اسکول آف آرکیٹکچر سے میں نے TOP کیا تھا۔ میری تنخواہ ساڑھے چھے ہزار ہے۔ کٹ کٹاکر چار ہزار ملتے ہیں۔ پراویڈنٹ فنڈ (FUND) کی قسط۔ پھر P.F. LOAN کی قسط۔ ہزار روپے شانتا کو ملتے ہیں، پرائیویٹ اسکول میں کام کرتی ہے۔

    پانچویں آواز (نسوانی): ہمارابینک اکاؤنٹ ZERO ہے۔ ہم ایک کلب کے ممبر ہیں، مگر ہم چاہیں بھی تو وہاں نہیں جاسکتے۔

    چوتھی آواز: ہم چاہیں بھی تو مہینے میں ایک روز کسی اچھے ہوٹل میں کھانا کھا نہیں سکتے۔

    پانچویں آواز: ہم چاہیں بھی تو ٹیوشن یا کسی او رطرح کچھ اور کما نہیں سکتے۔

    چوتھی آواز: دن بھر کی تھکن۔۔۔ شام کو ٹی۔ وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور بس۔

    پانچویں آواز: بس اسی طرح زندگی کی گاڑی چل رہی ہے۔

    (پس منطر سے ٹرک کا شور۔ بریک لگنے کی آواز۔ ہارن)

    فیڈ آؤٹ

    فیڈ ان

    (دور سے آتی ہوئی قہقہے کی گونج)

    سلیم چچا: (دور سے۔۔۔ بھاری گرجدار آواز)

    (وقفہ۔۔۔ ہیجان خیز موسیقی کی ایک لہر)

    سلطان: سیما! اتنی چپ اور اداس کیوں ہو؟

    سیما: (رک کر) اگر قمیصیں اور ساریاں نہ خریدتی تو چھے سو بچ گئے ہوتے۔

    سلطان: (مضحک انداز میں) بازار اس لیے تو نہیں کہ وہاں سے خریداری نہ کی جائے۔ زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے۔۔۔ جو کچھ بھی ہے۔ بکنے کے لیے ہے۔

    سیما: فلسفہ نہ بگھارو۔ کام کی بات کرو!

    سلطان: کام کی بات؟

    سیما: ہاں۔۔۔ سوال مہینہ گزارنے کا ہے۔

    سلطان: اس کی فکر مت کرو۔ مہینہ ہمیں گزار دے گا!

    سیما: (زچ ہوکر) سلطان پلیز۔۔۔ ہوش کی باتیں کرو!

    سلطان: تم کرو۔ میں سنتا ہوں!

    سیما: مارچ قرض لے کر گزاردیں۔

    سلطان: یہ سوال بعد کا ہے کہ قرض ملے گا کہاں سے۔۔۔ خیر۔۔۔ مارچ قرض لے کر گزاردیں۔

    سیما: اپریل کی تنخواہ اپریل نکال دے گا۔ اب رہا سوال مارچ کے قرض کو ادا کرنے کا۔

    سیما: پہلی مئی سے ہم دونوں کی چھٹیاں ہیں۔

    سلطان: ہیں!

    سیما: ہم سرفراز کے یہاں چلے چلیں۔ تین چار ہفتوں کے لیے۔ بس کرایہ خرچ ہوگا آنے جانے کا۔ سو دوسورپے اور سمجھ لو۔ باقی مہینے بھر کی مہمانی سے یہاں کا خرچ بچ جائے گا۔ اس سے قرض ادا ہوجائے گا۔

    سلطان: (ہنس کر) بھئی واہ۔ کیسی شاندار پلاننگ ہے۔ عورتیں سچ مچ مردوں سے زیادہ پریکٹیکل ہوتی ہیں۔

    سیما: (تمسخرے کے انداز میں) جی جناب۔

    سلطان: چلو۔۔۔ یہ گمبھیر مسئلہ حل ہوگیا۔

    سیما: (جھنجھلاکر) ابھی کہاں حل ہوا؟

    سلطان: تو ہوجائے گا۔ یہ مان لینے میں کیا ہرج ہے کہ مسئلہ حل ہوگیا۔

    سیما: لیکن۔۔۔!

    سلطان: لیکن کیا؟

    سیما: مان لو کہ سرفراز بھی کہیں چلے گئے ہوں۔۔۔ آخر ان دونوں میاں بیوی کی چھٹیاں بھی تو پہلی مئی سے ہوں گی۔

    سلطان: (پرخیال انداز میں) ہاں! اور مارچ سرفراز کے لیے بھی مسئلہ بنا ہوگا۔ آخر وہ بھی تو نوکری ہی کرتے ہیں۔ اور پھر ان کے شہر میں بھی SALE لگی ہوگی۔

    سیما: (روہانسی ہوکر) میرا مذاق اڑاکر اب تم زیادتی کر رہے ہو۔ لعنت ہے اس پر۔ اب ہمیشہ کے لیے توبہ!

    سلطان: ایک ہمارے تمہارے توبہ کرلینے سے کیا ہوتا ہے۔ دنیا کاکاروبار تو اسی طرح چلتا رہے گا۔

    فیڈان: پس منظر سے سڑک کا شور۔ ٹرک۔ مشینیں۔ ہارن۔ ملی جلی آوازیں۔

    (موسیقی کی ایک لرزہ خیز لہر)

    ساجد: (کانپتی ہوئی آواز) اف! میرے تو کان پک گئے اس آواز سے۔ بند کردو دروازہ۔ آسیہ! کھڑکی بھی بند کردو!

    آسیہ: تم سچ مچ ہوش کھو بیٹھے ہو ساجد۔ ہم اپنے دروازے اور کھڑکیاں بند کرلیں، اپنی آنکھیں بند کرلیں، اس سے دنیا کا کاروبار تو بند نہیں ہوجائے گا۔

    ساجد: (کانپتی ہوئی آواز) مجھے اس لفظ سے ڈر لگتا ہے۔ کاروبار۔۔۔ کیسا بدصورت اور بے ہودہ لفظ ہے۔

    آسیہ: تم پھر بہک گئے ساجد!

    ساجد: اس لفظ نے کسی کو کہیں کا نہیں رکھا۔ صبح سے شام تک، شام سے صبح تک اسی لفظ کا ہنگامہ جاری ہے۔ خاموش راتوں کے سکون کو چیرتی ہوئی بدہیئت آوازیں۔ مشینیں۔ کارخانے اور ٹرک۔۔۔ اُف۔۔۔ لوگ سمجھتے کیوں نہیں۔

    آسیہ: جنہوں نے سمجھ لیا انہیں بھلا کون سا سکھ مل گیا۔

    ساجد: (پرخیال انداز میں) ہوں۔۔۔ تم سلیم چچا کی بات کر رہی ہو؟

    آسیہ: تمہیں یاد ہے۔۔۔ سلیم چچا کے کیا عیش تھے۔ نوکر چاکر، کارخانے، زمینیں، فراغتیں۔

    ساجد: (اسی انداز میں) ہوں!

    آسیہ: پھر بیٹوں کی آپسی چپقلش نے سب کچھ برباد کرکے رکھ دیا ناں!

    ساجد: وہ سب مریض تھے۔ لالچی۔ انہیں زندگی کے وسیلے انسانی رشتوں سے زیادہ عزیز تھے۔

    آسیہ: سلیم چچا دیوانے ہیں۔ تم بھی دیوانے ہو۔ سلیم چچا کے بیٹوں نے جو کیا انہیں وہی کرنا چاہیے تھا۔

    ساجد: (کپکپاتی ہوئی آواز) اور اس سب کا نتیجہ بھی دیکھ رہی ہو تم؟ تم دیکھ رہی ہو سلیم چچا کی حالت!

    آسیہ: اپنی یہ درگت انہوں نے خود بنائی ہے۔ آخر اپنے بیٹوں کے ساتھ جاکر کیوں نہیں رہتے۔

    ساجد: تمہیں بوجھ لگتا ہے انہیں اپنے ساتھ رکھنا؟

    آسیہ: الٹی باتیں مت سوچو ساجد! میں اتنی کم ظرف نہیں ہوں۔ اور میں جانتی ہوں کہ وہ تمہارے سگے چچا ہیں۔

    ساجد: پھر؟

    آسیہ: پھرکیا؟ مجھے تو ان کی حالت پر ترس آتا ہے۔ ان کے بیٹوں کے پاس کیا نہیں ہے۔ آپس میں لڑ بھڑ کر بھی مزے میں ہیں۔ سب کے پاس اپنی کوٹھی ہے، کار ہے، نوکر چاکر ہیں۔ گھر میں دنیا جہان کی چیزیں بھری پڑی ہیں۔ کہاں کہاں سے کیسی کیسی شاندار چیزیں منگوائی ہیں۔

    ساجد: آخر تم کہنا کیا چاہتی ہو؟

    آسیہ: وہ ہم سے تو بہتر ہی ہیں۔ سلیم چچا ان کے ساتھ رہتے تو ہم سے بہتر رہتے۔

    ساجد: ہمارے پاس کیا نہیں ہے؟

    آسیہ: ہمارے پاس کیا ہے؟

    ساجد: (فلسفیانہ انداز میں) وہ چیزیں جو دکھائی دیتی ہیں، ان کا موازنہ ایسی چیزوں سے کرنا جو دکھائی نہ دیں، محض بے وقوفی ہے۔

    آسیہ: کیا دکھائی دیتا ہے؟ اور کیا نہیں دکھائی دیتا؟

    ساجد: (غصے میں) امپورٹڈ گاڑیاں اور مشینیں اور عالیشان مکان اور کارخانے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ مگر اپنے اند رکی پیاس اور محرومی اور بے حصولی کا احساس، رشتوں کی بربادی کا احساس۔۔۔ یہ سب کسی کو نہیں نظر آتا۔ لوگ بھول گئے کہ خیال اور احساس بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔

    آسیہ: اسی طرح جیسے ریفریجریٹر اور میوزک سسٹم اور ایئرکنڈیشنر۔۔۔ (ہنستی ہے)

    ساجد: توتمہیں ان چیزوں کی طلب تھی؟

    آسیہ: اگر کہہ دوں کہ آج بھی ہے تو؟

    ساجد: (افسردگی سے) پھر تم نے غلطی کی ہے۔۔۔ تمہارے لیے میری جگہ۔

    آسیہ: (چیخ کر) ساجد!

    (سلیم چچا کا قہقہہ، دور سے آتی ہوئی آواز۔ قدموں کی چاپ قریب آتی ہے۔ دروازے پر دستک۔۔۔)

    آسیہ: (دروازہ کھولتے ہوئے) آپ؟ سلیم چچا!

    سلیم چچا: تم دونوں پھر لڑ رہے تھے۔ (ہنستے ہیں) ٹھیک ہے۔ خالی نہیں بیٹھنا چاہیے۔ کرنے کو کچھ بھی نہ ہو تو لڑنا چاہیے۔ اس سے دماغ چوکس رہتا ہے۔

    ساجد: بیٹھیے چچا!

    (سلیم چچا کرسی کھینچ کر بیٹھ جاتے ہیں۔)

    آسیہ: غلطی میری نہیں تھی!

    سلیم چچا: تو میں کب تمہیں الزام دے رہا ہوں بیٹی۔

    آسیہ: آپ نے سوچا ہوگا کہ میں کتنی بدتمیز ہوں۔۔۔ آپ جانتے ہیں، مجھے اتنی اونچی آواز میں بولنے کی عادت نہیں ہے۔۔۔ مگر۔۔۔

    سلیم چچا: اوہو۔۔۔ تو پریشان کیوں ہو؟ چاروں طرف شور بہت ہے۔ شور میں سرگوشی سنائی نہیں دیتی عزیزوں۔۔۔ تم نے چیخ کر غلطی نہیں کی۔ تم نے دیکھا ہے ناں! لوگوں کے کان گنگ ہوگئے ہیں۔

    (دور سے آتی ہوئی شور کی آواز۔ ٹرک کے انجن کی گھڑگھڑاہٹ۔ اچانک بریک لگتے ہیں۔ ایک لمبی چیخ۔۔۔ ملی جلی آوازیں۔ ساجد تیزی سے دروازہ کھولتا ہے اور باہر نکل جاتا ہے۔)

    آسیہ: (گبھراکر) کیا ہوا۔۔۔ اللہ۔۔۔ میرا تو دل بیٹھا جاتا ہے۔ باہر یہ بھیڑ کیسی ہے۔

    سلیم چچا: (اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے) باہر بھی بھیڑ ہے۔ اندر بھی بھیڑ ہے۔ کوئی اکیلا نہیں۔ اسی یے تو لوگ سوچنا بھولتے جاتے ہیں۔

    آسیہ: (بیزاری سے) باہر کوئی حادثہ ہوگیا چچا۔

    سلیم چچا: حادثوں کا ایک سلسلہ ہے زندگی۔ چلو۔۔۔ (بے نیازانہ لہجے میں) اس سلسلے میں ایک اور کڑی جڑگئی۔ اے عزیز۔۔۔ پریشان ہونے سے حاصل؟

    (بھاگتے ہوئے قدموں کی چاپ قریب آتی ہوئی)

    (ساجد اندر آتا ہے)

    آسیہ: کیا ہوا ساجد؟

    ساجد: دونوں بری طرح زخمی ہیں۔ ڈرائیور بھاگ گیا۔

    آسیہ: دونوں کون؟

    ساجد: میاں بیوی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے اسکوٹر اور ٹرک میں ٹکر ہوگئی۔

    آسیہ: دونوں زخمی ہیں؟

    ساجد: ہاں! لوگ انہیں اسپتال لے گئے۔

    آسیہ: کون ہیں، کچھ پتا چلا؟ کم سے کم ان کے گھروالوں کو تو خبر ہوجانی چاہیے۔

    ساجد: مرد کی جیب میں آئڈنٹی ٹی کارڈ IDENTITY CARD تھا۔ سلطان حیدر۔۔۔ دونوں شاید بازار سے آرہے تھے۔ پولی تھین بیگز BAGS میں خریدی ہوئی ساریاں اور کرتے۔

    آسیہ: اوہ ہاں! آج کل SALE لگی ہوئی ہے۔

    ساجد: کب نہیں لگی رہتی یہ سیل؟ لوگ خریدتے رہیں گے۔ چاہے قرض لینا پڑے اس کے لیے۔

    آسیہ: (بیزاری سے) اونہہ! بے چارے! بچ تو جائیں گے ناں!

    ساجد: (کھوئی ہوئی آواز میں) ہاں، اس حادثے سے تو شاید بچ جائیں گے۔ مگر۔۔۔ یہ تو ایک سلسلہ ہے۔

    (سلیم چچا کی ہنسی)

    آسیہ: چچا! یہ کون سی ہنسی کی بات تھی؟

    ساجد: (تنبیہہ کے انداز میں) آسیہ!

    آسیہ: (سنبھل کر) میں تو یونہی پوچھ رہی تھی۔ مگر یہ ہوا کیسے؟

    ساجد: ٹرک کی رفتار تیز تھی۔ اسکوٹر کی رفتار بھی تیز تھی۔ دونوں نے بریک لگائے۔ پھر بھی ٹکر ہوگئی۔

    (پس منظر سے حزینہ موسیقی کی ایک لہر۔ سلیم چچا کا مجنونانہ قہقہہ)

    ساجد: (گھبراکر) سلیم چچا! سلیم چچا!

    سلیم چچا: عزیزو۔ گھبراؤ نہیں! اتنی زور سے مت بولو۔ میں سن رہا ہوں تم دونوں کی باتیں۔۔۔ دیر سے سن رہا ہوں اور صرف ایک بات سوچ رہا ہوں۔

    آسیہ: کیسی بات؟ کیا سوچ رہے ہیں!

    سلیم چچا: دیکھو۔۔۔ سڑک کے اس موڑ سے پہلے ایک اسپیڈ بریکر بن جانا چاہیے۔

    ساجد: (دھیرے سے) SPEED BREAKER۔

    سلیم چچا: ہاں۔۔۔ رفتار پر کسی کا قابو نہیں رہا اور سب بے لگام ہیں، اور انسانوں اور گاڑیوں کو۔۔۔ سب کو کہیں پہنچنے کی جلدی ہے۔ اور کسی کو احساس نہیں کہ یہ راستے بس راستوں تک لے جاتے ہیں۔ اور کوئی دم لینے کے لیے بھی ٹھہرنا نہیں چاہتا۔ اور سب کے سب ایک پاگل دور میں لگے ہوئے ہیں۔

    (پس منظر سے ہیجان خیز موسیقی)

    سلیم چچا: (کانپتی ہوئی آواز میں) اور عزیزو۔۔۔ جب رفتار پر بس نہ چلے تو ضروری ہے کہ راستوں پر روکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔ اسپیڈ بریکرز۔

    (پس منظر سے ہیجان خیز موسیقی)

    ساجد: سلیم چچا! (خوفزدہ لہجے میں) سلیم چچا!

    سلیم چچا: اور جان لو کہ اسپیڈ بریکرز نہیں بنے تو کل، پھر اس کے اگلے روز، پھراس کے اگلے روز اور پھراس کے اگلے روز۔

    (آسیہ کی کھنکتی ہوئی ہنسی۔ مسلسل۔ دیوانہ وار)

    سلیم چچا: اور پھر اس کے اگلے روز۔

    ساجد: سلیم چچا۔۔۔!

    (آسیہ کی ہنسی)

    سلیم چچا: اور پھر اس کے اگلے روز۔

    (آسیہ کی ہنسی کی آواز اونچی ہوتی جاتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہیجان خیز موسیقی کی گت تیز ہوتی جاتی ہے۔)

    فیڈ آؤٹ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے