کردار:
(۱) سامیہ۔۔۔ ایک خواب پرست لڑکی
(۲) عاصم۔۔۔ ایک خواب پرست نوجوان
(۳) اباجی۔۔۔ سامیہ کے والد
(۴) ناصر میاں۔۔۔ عاصم کے والد
(۵) سہیلہ۔۔۔ عاصم کی بہن
(۶) چچی امی۔۔۔ سہیلہ کی چچی
(ابتدائی موسیقی۔ تیز رفتار اور ڈراؤنی)
فیڈ آؤٹ سے پہلے دور کہیں کسی عورت کی چیخ سنائی دیتی ہے۔ پھر تیز تیز سانسیں۔ بیچ بیچ میں سامیہ کے کراہنے کی آواز۔
اباجی: (دروازے کو تھپتھپاتے ہوئے) سامیہ! بیٹے سامی۔۔۔ سامیہ!
سامیہ: (تیز تیز سانوں کے درمیان پھنسی پھنسی سی آواز میں) جی! ابا جی۔۔۔ اباجی!
اباجی: (پکارتے ہوئے) بیٹی سامیہ، دروازہ کھولو۔ دروازہ کھولو۔
(سامیہ دروازہ کھولتی ہے)
سامیہ: (بھرائی ہوئی آواز میں) اباجی، اباجی!
اباجی: کیا ہوا بیٹے۔۔۔؟ کتنی بار کہا، دروازہ اندر سے مت بند کیا کرو! تم سوتے میں اکثر ڈر جاتی ہو۔
سامیہ: سوتے میں؟
اباجی: ہاں، اور نہیں تو کیا؟ دروازہ کھول کر سویا کرو۔
سامیہ: سویا کروں؟
اباجی: افوہ! ہاں ہاں ہاں، دروازہ کھول کر سویا کرو۔ اندر سے چٹخنی مت لگاؤ۔ تم سوتے میں ڈر جاتی ہو۔
سامیہ: مم۔۔۔ مگر، میں سوتی کہاں ہوں اباجی!
اباجی: یہ اور لو! تم سو نہیں رہی تھیں؟ خواب میں ڈری نہیں تھیں؟ چیخی نہیں تھیں؟
سامیہ: میں سو نہیں رہی تھی اباجی۔
اباجی: پھر کیا؟ کیا جاگ رہی تھیں؟
سامیہ: ہاں! جاگ رہی تھی۔۔۔
اباجی: اور جاگتے میں چیخ نکل گئی تھی؟
سامیہ: چیخ؟ کس کی چیخ؟ کب؟ کہاں؟
اباجی: تم چیخی تھیں! ابھی چیخی تھیں! اسی کمرے میں چیخی تھیں۔
سامیہ: مگر۔۔۔ ( پرخیال انداز میں) میں تو جاگ رہی تھی۔ جاگ رہی تھی ناں! مجھے نیند آئی ہی نہیں رات کو۔۔۔ میں تو ساری رات نہیں سوئی۔۔۔ کبھی نہیں سوتی!
اباجی: تمہارا دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔؟ (چمکارتے ہوئے) سامی بیٹے! کل سے تم میرے کمرے میں سوؤگی۔ اکیلے نہیں سوؤگی۔ اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو پھر میں رات بھر جاگوں گا اور تمہارے دروازے پر پہرا دوں گا۔
سامیہ: (ڈری ڈری سی ہنسی) اباجی! آپ ناحق گھبراجاتے ہیں ذرا سی بات پر۔
اباجی: تم اسے ذرا سی بات کہتی ہو؟
سامیہ: اور نہیں تو کیا۔۔۔؟
اباجی: تو تم چیخی نہیں تھیں؟
سامیہ: نن۔۔۔ نہیں۔
اباجی: پھر؟ پھر وہ کس کی آواز تھی؟ ہو بہو تمہاری جیسی! میں جاگ رہا تھا۔ اور میں نے اپنے کانوں سے وہ آواز سنی تھی۔
سامیہ: آپ جاگ رہے تھے؟ کیوں جاگ رہے تھے؟
اباجی: میں تو ہر روز صبح ساڑھے چار بجے تک جاگ اٹھتا ہوں۔ آج بھی اٹھ گیا تھا۔ منہ ہاتھ دھوچکا تھا۔ چاے بناکر پی لی تھی۔ فجر کی نماز پڑھ لی تھی۔
سامیہ: (حیرت سے) ایں! تو کیا صبح ہوگئی؟
اباجی: ہاں!تمہارے کمرے سے باہر۔۔۔ وہ دیکھو۔۔۔ کھڑکی کاپردہ ہٹاکر دیکھو۔ اجالا دھیرے دھیرے پھیل رہا ہے۔ پرندے بھی جاگ چکے۔ اور وہ دیکھو، ندی کا پانی اس اجالے میں کیسا چمک رہا ہے۔ ہم، مگر۔۔۔ وہ چیخ کس کی تھی؟
سامیہ: بتاؤں؟
اباجی: ہاں بتاؤ۔۔۔!
سامیہ: پانی کی! میرا مطلب ہے ندی کی۔۔۔! کبھی کبھی پانی کی کوئی لہر اچانک چیخ اٹھتی ہے۔
(پس منظر سے ہوا کا تیز جھونکا۔۔۔ پیپل کے پتوں کا شور۔ پرندوں کے چہچہے۔۔۔ موسیقی کی ایک تیز لہر۔۔۔)
فیڈ آؤٹ
(حقے کی گڑگڑاہٹ۔۔۔ مسلسل۔۔۔)
ناصرمیاں: ہاں تو بھائی سعادت حسین؟ سمجھ میں آئی میری بات؟ اگر اب تک نہیں سمجھے تو اب سمجھنے کی کوشش کرو۔ بھابی صاحب کے بعد میں نے کتنا کہا، گھر بسالو، گھر بسالو، مگر تم نے ایک نہ مانی۔ پھر میں نے کہا۔۔۔ اکیلے ہی رہنا ہے تو بیٹی کو ہوسٹل میں داخل کرادو، وہاں اپنی ہم جولیوں میں رہے گی۔ بہلی رہے گی۔ عام لڑکیوں کی طرح وقت گزارے گی۔ گھومے پھرے گی۔ گپ شپ کرے گی۔ کھیلے کودے گی مگر تم نے ایک نہ مانی۔ اب نتیجہ سامنے ہے۔ تم تو ہمیشہ کے سنکی تھے۔ بیٹی بھی سنک گئی ہے۔ اچھا چلو، ایک آخری مشورہ۔۔۔
اباجی: کہو کہو!سنے لیتے ہیں! تمہارے ہر مشورے کی طرح، یہ مشورہ بھی اسی قابل ہوگا کہ اسے نہ مانا جائے۔ ناصرمیاں! ایک بات یاد رکھو! مشورے جو ہر ایک کو ڈھیروں کے حساب سے دیے جاتے ہیں، وہ اسی لیے کہ مفت ہاتھ آتے ہیں۔۔۔
ناصر میاں: اوں ہوں، سعادت سن تو لو، ماننا نہ ماننا تمہارے اختیار میں ہے۔
اباجی: سناؤ، سنے لیتے ہیں۔ جس طرح مشورے دینے والے کا کچھ نہیں جاتا، اسی طرح سننے والے کی گرہ سے بھی کچھ نہیں جاتا۔
ناصر میاں: (سنجیدگی سے) دیکھو! تم میری مانو تو سامیہ کو یہاں سے ہٹادو۔
اباجی: کک؟ کیا مطلب ہے؟
ناصرمیاں: ہٹادو اسے یہاں سے!
اباجی: (کانپتی ہوئی آواز میں) کیوں؟
ناصر میاں: کیونکہ یہاں اس کا ایک دشمن رہتا ہے۔
اباجی: (افسردہ لہجے میں) تو میں اپنی بیٹی کا دشمن ہوں؟
ناصر میاں: تم نہیں!
اباجی: پھر کون؟
ناصر میاں: یہ پانی۔۔۔ ندی میں بہتا ہوا پانی! پتا نہیں کب سے کس منزل کی تلاش میں بھٹکتا ہوا پانی۔۔۔! یہ ترل ترل کرتا ہوا، اپنے آپ میں گم ہمارے سامنے سے گزرتا ہوا۔۔۔ پانی! اسے کسی کی پروا نہیں۔
اباجی: (حیرت سے) تم نہ جانے کیا کہہ رہے ہو ناصر میاں!
ناصر میاں: میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سعادت، تم اچھی طرح سمجھتے ہو پر اپنے آپ کو بہلائے رکھنا چا ہتے ہو۔۔۔ بتاؤ، تمہیں بتاؤ! بھابی صاحب بھی کہتی تھیں یا نہیں کہ یہ پانی بہت سنگ دل ہے۔ اور سامیہ بھی یہی کہتی ہے یا نہیں؟ اور میں بھی یہی کہہ رہا ہوں۔ تم سامیہ کو یہاں سے ہٹادو۔۔۔ چلو، کچھ دنوں کے لیے ہی سہی۔
اباجی: کہاں بھیج دوں؟
ناصر میاں: ہمارے گھر بھیج دو۔۔۔ کچھ روز ہمارے گھر رہ لے گی۔ چار لوگوں میں ہنسے بولے گی تو بہلی رہے گی۔ جس گھر میں آدمی نہ ہو اس میں اور ویرانے میں بھلا کون سا فرق ہے۔
اباجی: تو۔۔۔ میں آدمی نہیں ہوں تمہارے نزدیک؟
ناصر میاں: نہیں!
اباجی: پھر۔۔۔؟ پھر میں کیا ہوں؟
ناصرمیاں: آدمی کی پرچھائیں۔۔۔ اور سامیہ پرچھائیوں میں رہتے رہتے تنگ آچکی ہے۔ اسے تم جتنی جلدی ہوسکے یہاں سے ہٹادو۔۔۔ اور کہیں نہیں تو میرے ہی گھر بھیج دو۔
اباجی: پوچھوں گا سامیہ سے۔
ناصر میاں: پوچھوں گا کا کیا مطلب ہے؟ ابھی بلاکر پوچھ لو۔ تم نہ پوچھنا چاہو تو میں پوچھ لوں۔ پکارو اسے
(پکارتے ہوئے) سامی بیٹے۔۔۔ سامیہ! اوسامیہ!
سامیہ: (دور سے) آتی ہوں اباجی! ابھی آتی ہوں!
ناصر میاں: اس سے پہلے کہ وہ آئے، ایک بات کان کھول کر سن لو۔ اگر سامیہ نے ہاں کردی تو پھر تم اسے روکوگے نہیں۔ سمجھے؟ میں اسے ابھی، اسی وقت اپنے ساتھ لے کر چلاجاؤں گا۔
اباجی: (بہت دھیرے سے) لے جانا، لے جانا۔ میرا کیا ہے۔ اس کے بغیر بھی رہ لوں گا۔
(سامیہ کے قدموں کی چاپ۔۔۔ آتی ہے)
اباجی: سامیہ! بیٹھو بیٹے! دیکھو، تمہارے ناصر چچا کیا کہہ رہے ہیں؟
سامیہ: (بھرائی ہوئی آواز میں) جی ناصرچچا!
اباجی: میں سعادت سے کہہ رہا تھا کہ دوچار روز کے لیے تمہیں میرے یہاں رہنے کی اجازت دے دیں۔ ان دنوں سہیلہ کی بھی چھٹی ہے۔ اکیلی ہڑدنگ مچاتی پھرتی ہے دن بھر۔۔۔ تمہارے ساتھ رہ کر وہ بھی کچھ سدھر جائے گی۔
سامیہ: (فیصلہ کن انداز میں) نہیں ناصر چچا۔ میں اس گھر کو چھوڑ کر کہیں نہیں رہ سکتی۔
ناصر میاں: کیوں؟
سامیہ: یہاں اباجی اور اکیلے ہوجائیں گے۔ پھر، مجھے کھڑکی سے بہتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہنے کی عادت ہے۔ اسے دیکھتے دیکھتے وقت اچھا کٹ جاتا ہے۔ کبھی تھم تھم کر بہتا ہوا پانی، کبھی اچھلتا ہوا پانی۔۔۔ کبھی خاموش۔۔۔ کبھی شور مچاتا ہوا۔ پانی بھی ایک دم آدمی جیسا ہے۔
(پس منظر سے ستار پر تیز گت۔ پانی کا شور)
فیڈ آؤٹ
فیڈان:
(باورچی خانے کی کھٹ پٹ۔ ہینڈ پمپ چلانے کی آواز۔ دھیرے دھیرے چچی امی کی آواز ابھرتی ہے)
چچی امی: (بڑبڑاتے ہوئے) ہے ہے۔ غضب خدا کا۔ شام سے صبح، صبح سے۔۔۔ دوپہر ہونے کو آئی، سورج سوانیزے پر چمک رہا ہے، صاحب زادے سو رہے ہیں۔ اور جاگیں رات رات بھر، موٹی موٹی کتابیں پڑھتے پڑھتے موئی آنکھیں تھک گئیں۔ اتی سی عمر میں عینک چڑھالی۔ کتنا کہا، بیٹا، صبح سویرے فجر تک اٹھ کر ہری دوب پر ٹہلا کرو۔ مگر میری سنتا کون ہے۔۔۔؟ سہیلہ اوسہیلہ (پکارتی ہے)
سہیلہ: (دور سے) جی چچی امی!
چچی امی: ارے وہیں سے چلائے جارہی ہوگلا پھاڑ کے۔ ذرا سنوگی بھی؟
سہیلہ: آرہی ہوں۔
(آتی ہے)
چچی امی: ذرا لاٹ صاحب سے کہو کہ ناشتے کا وقت کب کا نکل چکا۔ اب دن کے کھانے کا دسترخوان بچھنے والا ہے۔ اب تو اٹھ جائیں۔
سہیلہ: کون، عاصم بھائی؟ رات شاید وہ دیر تک جاگتے رہے۔
چچی امی: ارے وہ تو روز ہی ہوتا ہے۔ اللہ نے دن بنایا کام کے لیے۔ رات سونے کے لیے ہے۔ چرند پرند تک چین سے سوتے ہیں رات بھر۔ مگر صاحب زادے ہیں کہ ان کے دماغ میں یہ موٹی سی بات بھی نہیں آتی۔ پڑھنے لکھنے کا فائدہ کیا جب آدمی کا بچہ یہ بھی نہ جان سکے کہ کون سا وقت کس کام کے لیے ہے۔ اے میں کہتی ہوں۔ وقت سے سوؤ۔۔۔ وقت سے جاگو۔۔۔ وقت سے کھاؤ۔۔۔ وقت سے پیو۔۔۔ وقت سے گھومو۔۔۔ وقت سے اٹھو بیٹھو۔
(سہیلہ ہنستی ہے)
چچی امی: ماشاء اللہ کیا تمیز ہے۔۔۔ کیا تہذیب ہے۔۔۔؟ بوڑھوں کی ہنسی بچے اڑائیں۔
سہیلہ: (ہنسی ضبط کرتے ہوئے) تو آپ بات کرتے کرتے ایک ہی جگہ سوئی کیوں گھمانے لگتی ہیں؟
چچی امی: بکومت! جاؤ، جاکر اٹھادو اسے۔ انتڑیاں سوکھ رہی ہوں گی۔ اٹھے، ناشتہ کرے، چائے پیے۔۔۔ وقت تو دن کے کھانے کا ہے۔ مگر صاحب زادے جب تک ایک کیتلی چائے حلق سے اتار نہ لیں۔۔۔
(چچی امی کی آواز اچانک پھنستی ہے۔ کھانسنے لگتی ہیں)
چچی امی: (روہانسی آواز میں) جاؤ۔۔۔ جگاؤ عاصم کو۔ (کھانسی کا دورہ)
(سہیلہ کے قدموں کی چاپ۔ دور ہوتی ہوئی)
وقفہ
سہیلہ: عاصم بھائی۔۔۔ عاعاصم بھائی۔۔۔ اوں ہوں۔۔۔ اٹھتے کیوں نہیں؟
عاصم: کون؟ سہیلہ؟ ارے۔۔۔ صبح ہوگئی؟
سہیلہ: دوگھنٹے اور پڑے رہے اسی طرح تو شام بھی ہوجائے گی۔ پتا ہے تمہیں اس وقت کیا بج رہا ہے؟
عاصم: (جمائی لیتے ہوئے) کیا بج گئے؟
سہیلہ: ساڑھے گیارہ! چچی امی مجھ پر بڑبڑا رہی ہیں۔
عاصم: ایں؟ ساڑھے گیارہ؟ تم تو کہہ رہی تھیں شام ہونے والی ہے۔
سہیلہ: تو کیا اسے صبح کہوں؟ ذرا دیر میں سورج ڈھلنے لگے گا۔
عاصم: (ہنس کر) پھر جاڑوں کی رت آئی
چھوٹے دن اور لمبی رات۔۔۔
سہیلہ: کک۔۔۔ کیا؟
عاصم: ایک دم کوڑھ مغز ہو تم۔ شعر شاعری تمہارے بس کی بات نہیں۔
سہیلہ: ہونہہ۔۔۔ ہوگا۔ تم میری فکر چھوڑو اور جلدی سے ناشتے کے لیے تیار ہوجاؤ۔
عاصم: آخر ایسی جلدی کیا ہے؟
سہیلہ: وہ آنے والی ہیں ناں!
عاصم: کون؟
سہیلہ: سامیہ باجی۔
عاصم: سامیہ۔ (دھیرے سے) سامیہ۔ کیوں؟ کس لیے؟ تم تو کہہ رہی تھیں انہوں نے آنے سے انکار کردیا تھا۔
سہیلہ: وہ بھی ذرا جھکی ہیں ناں! پہلے نہیں مان رہی تھیں۔ مگر ابو بھی پیچھے پڑگئے۔ سعادت چچا کی سمجھ میں بھی آگئی یہ بات۔ وہ ظاہر نہیں کرتے۔ مگر سامیہ باجی کی طرف سے پریشان رہتے ہیں۔
عاصم: (پرخیال انداز میں) ہوں! یہ تو اچھا نہیں!
(خاموشی کا وقفہ)
عاصم: یہ تم اس طرح حیرانی سے مجھے گھور کیوں رہی ہو؟ کیا میرے ماتھے پر سینگ نکل آئے ہیں؟
سہیلہ: (ہنستی ہے) ہاں۔ کچھ کچھ نظر تو آرہے ہیں۔ (ایک دم سنجیدہ لہجے میں) تمہیں سعادت چچا کی فکر ہے یا سامیہ باجی کی۔۔۔؟
عاصم: کیا؟ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
سہیلہ: ابو کے بارے میں بھی سوچا کبھی؟ کتنے پریشان رہتے ہیں تمہاری طرف سے۔ وہ تو ان کی عادت ہے ہنسی مذاق کی۔
عاصم: عجیب بات ہے۔
سہیلہ: کون سی بات؟
عاصم: تم نہیں سمجھو گی بٹو! اچھا ہے ایک لحاظ سے کہ تم نہ سمجھو۔ سہیلہ، سب کو ایک جیسا نہیں ہونا چاہیے۔
سہیلہ: پہیلیاں نہ بجھاؤ عاصم بھائی۔
عاصم: جو اداس رہتا ہے وہ تو ہے ہی۔ تم کہتی ہو جو اوپر سے ہنستا ہے وہ بھی اداس ہے۔ ابوجی، سعادت چچا۔۔۔ سامیہ۔۔۔ اداسی ایک موسم ہے۔۔۔ ساری انسانی بستیوں پر پھیلتا ہوا، ایک ایک کو اپنے سائے میں سمیٹتا ہوا۔
(دور سے۔۔۔ دروازے پر زنجیر کھٹکھٹانے کی آواز۔۔۔ دروازہ کھلتا ہے)
فیڈان:
ناصر میاں: ارے سہیلہ؟ عاصم۔۔۔؟
سہیلہ: (زور سے) آئی ابو! (جاتی ہے)
ناصر میاں: عاصم کہاں ہیں؟ ذرا دیکھو تو، کون آیا ہے!
سہیلہ: ارے۔۔۔ سامیہ باجی؟ آداب!
سامیہ: (دھیرے سے) آداب۔ کیسی ہو سہیلہ تم؟
سہیلہ: ٹھیک ہوں۔
ناصر میاں: اور بھابی بیگم کہاں ہیں؟ انہیں بھی بتادوناں کہ سامیہ آئی ہے۔
سہیلہ: ببرچی خانے میں ہیں۔ عاصم بھائی کا ناشتہ بنارہی ہیں۔
ناصرمیاں: ناشتہ؟ اس وقت ناشتہ۔۔۔؟ کچھ خبر بھی ہے، دن کتنا چڑھ آیا۔۔۔؟ (سامیہ سے) سامیہ بیٹی! تم اب یہیں رہو۔ جب تک جی چاہے رہو۔ جی نہ چاہے جب بھی رہو۔ بھائی سعادت حسین کی فکر چھوڑدو۔ میں صبح شام ان کی خیر خبر لیتا رہوں گا۔
(چچی امی کھٹ کھٹ کرتی آتی ہیں)
چچی امی: آگئی، میری بیٹی۔۔۔ سامیہ۔ آؤ تمہیں گلے لگالوں۔ آنکھیں ترس گئی تھیں تمہیں دیکھنے کو۔
سامیہ: آداب چچی امی!
چچی امی: جیتی رہو بیٹی۔۔۔ اچھا ہوا تم آگئیں۔ میں تو کب سے زور دے رہی تھی ناصر میاں پر کہ تمہیں بلالیں کچھ دنوں کو۔
ناصر میاں: تو میں نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتو دی بھابی بیگم۔
چچی امی: ہاں میاں۔۔۔ (افسردہ لہجے میں) وہاں سعادت بھائی اکیلے۔۔۔ یہاں تم اکیلے۔ دلہن بیگم کے اٹھتے ہی اس گھر پر بھی جیسے سناٹا چھا گیا۔ عاصم اپنے کمرے میں بند رہتے ہیں۔ ایک سہیلہ کے دم سے ذرا رونق رہتی ہے۔ سہیلہ نہ ہو تو میرا سانس لینا بھی دوبھر ہوجائے۔
ناصر میاں: آپ۔۔۔ آپ بھابی بیگم۔۔۔ آپ بھی تو بہت اکیلی ہیں۔ آپ نے اس گھر کے لیے کتنا کیا ہے۔۔۔ کیا کچھ کر رہی ہیں۔۔۔ یہ گھر آپ ہی کی وجہ سے تو گھر لگتا ہے بھابی بیگم!
(پس منظر سے حزینہ موسیقی کی ایک لہر)
فیڈ آؤٹ
فیڈان:
(شام کا سناٹا۔ دور بجتی ہوئی گھنٹیاں۔ بہتے ہوئے پانی کی ترل ترل۔)
سامیہ: عجیب بات ہے عاصم!سوچو تو کتنا عجیب لگتا ہے۔
عاصم: کچھ بھی عجیب نہیں ہے سامیہ۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا ہونا چاہیے تھا۔ گئے دنوں میں یہ بستی کتنی خاموش تھی۔ کچی سڑکوں پر اکا دکا راہ گیر۔۔۔ جیتے جاگتے لوگ پرچھائیوں جیسے دکھائی دیتے تھے۔ اب شور بہت ہے۔
سامیہ: اندر بھی اور باہر بھی۔ سچ مچ بہت شور ہے۔
عاصم: وقت کا دریا بہتا رہتا ہے۔۔۔ اس سمٹی سمٹائی ندی کی طرح، تم جس کی لہریں گنتی رہتی ہو۔۔۔ اپنی کھڑکی سے آنکھیں لگائے۔
سامیہ: امی کے انتقال کے بعد سے اباجی بہت چپ رہنے لگے ہیں۔ اس گھر میں ہر وقت، آٹھوں پہر ان کی خاموشی گونجتی رہتی ہے۔
عاصم: اور ہمارے گھر میں چچی امی کے بڑبڑانے کی آواز۔۔۔ ان کی ڈانٹ ڈپٹ، ایک پل کو بھی چپ ہونے میں نہیں آتیں۔۔۔ اور ابو۔۔۔ ہنستے رہتے ہیں۔ سہیلہ کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ مگر مجھے پتا ہے۔ چچی امی کی لگاتار ڈانٹ ڈپٹ کی طرح، ابو کی ہنسی کا بھی صرف ایک مطلب ہے۔
سامیہ: کیا؟
عاصم: وہی لمبی چپ۔۔۔ جس نے سعادت چچا کو گھیر رکھا ہے اور تمہیں گھیر رکھا ہے۔
سامیہ: اور تم؟
عاصم: ہاں، مجھے بھی گھیر رکھا ہے۔
سامیہ: ایسا کیوں ہے عاصم؟
عاصم: ایسا اس لیے ہے کہ ہم خود بھی گھرے رہنا چاہتے ہیں۔ تمہارے اباجی نے دوسری شادی نہیں کی۔ ہمارے ابو نے بھی ایسا ہی فیصلہ کیا۔ تمہاری خاطر۔ تمہاری اور صرف تمہاری خاطر سعادت چچا کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے تھے۔
سامیہ: اور ناصر چچا؟
عاصم: ہاں، ابو کو سہیلہ کی اور میری فکر تھی۔ وہ تو کہو کہ چچی امی ہمارے گھر آگئیں، بڑے ابا کے انتقال کے بعد، ورنہ شاید ہمارا گھر اور تمہارا گھر دونوں ایک جیسے ہوتے۔
سامیہ: (گھبراکر) تو کیا یہ دونوں گھر ایک جیسے نہیں ہیں؟
عاصم: (چونک کر) سامیہ!
سامیہ: (کانپتی ہوئی آواز میں) نہیں، نہیں، پہلے تم یہ بتاؤ کہ دونوں گھر کیا ایک سے نہیں ہیں؟
عاصم: سامیہ۔۔۔! سامیہ۔۔۔! میں تمہارے لیے پریشان ہوں سامیہ!
سامیہ: میرے لیے؟
عاصم: ہاں، صرف تمہارے لیے۔
سامیہ: کیوں؟
عاصم: کیونکہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔
سامیہ: اُف، ایسی باتیں نہ کرو کہ مجھے رونا آجائے۔
عاصم: میں نے آج سے پہلے تمہیں کبھی بتایا نہیں۔ بتادینا چاہتا تھا جب بھی نہیں بتایا۔ پچھلے بہت برسوں سے، جب سے میں نے تمہیں جانا ہے، میں تم سے محبت کرتا آیا ہوں سامیہ۔
سامیہ: اُف، میرے خدا۔ (رونے لگتی ہے)
عاصم: تم رو رہی ہو؟ سامیہ؟ دیکھو میں کتنا پریشان ہوں تمہارے لیے۔ آج سے نہیں، پچھلے بہت برسوں سے تمہارے لیے پریشان ہوں۔
سامیہ: کس لیے؟
عاصم: اس لیے کہ تم بہت اکیلی ہو۔ سعادت چچا بہت اکیلے ہیں۔ یہ گھر بہت اکیلا ہے۔ یہاں رہتے رہتے تم کو اندازہ نہیں کہ تم اندر ہی اندر کتنی سمٹی جارہی ہو۔۔۔ یہ بھی تو سوچو کہ ہماری دنیا ہمارے اندر ہی نہیں باہر بھی ہوتی ہے۔ بستیاں، آبادیاں، شہر اور قصبے اور باغ اور بَن۔
(دروازے پر دستک، دور سے آتی ہوئی آواز)
سامیہ: (چونک کر) اباجی آگئے شاید۔ (جاتی ہے)
فیڈان:
(ملے جلے قدموں کی چاپ)
اباجی: تم نے تو ہمیں تھکا دیا سامی! اور عاصم، تم نے بھی نہیں روکا اِسے؟
عاصم: روکا تو تھا۔ بہت روکا تھا۔ سہیلہ نے اور چچی امی نے اور ابو نے، سب نے روکا تھا۔
ابا جی: پھر؟
عاصم: سامیہ کو یہی ضد تھی کہ شام سے پہلے گھر واپس آجائیں۔
اباجی: میں تو چار بجے کے قریب اس خیال سے تمہاری طرف گیا تھا کہ ناصر میاں سے مل لوں گا۔ سامیہ سے مل لوں گا۔ گھڑی دو گھڑی وہاں بیٹھوں گا پھر لوٹ آؤں گا۔ مگر وہاں پہنچتے ہی پتا چلا کہ تم سامیہ کو پہنچانے کے لیے نکلے ہو۔ بھابی بیگم نے روکا، ناصر نے روکا۔۔۔ مگر میں الٹے پانو واپس چل پڑا۔
(خاموشی کا وقفہ۔۔۔ پس منظر سے ہوا کا شور اور پانی کی ترل ترل۔ دور کسی پرندے کی چیخ۔)
سامیہ: لگتا ہے اپنے ٹھکانے سے دور تیز ہواؤں میں پھنس گیا ہے۔
اباجی: کون؟
سامیہ: پرندہ۔
اباجی: کون سا پرندہ؟
سامیہ: ابھی جس کی چیخ سنائی دی تھی۔
اباجی: (فکر آمیز انداز میں) سامی بیٹے!
سامیہ: جی اباجی!
اباجی: کتنے خوش تھے ناصر میاں جب تم ان کے ساتھ جانے پر رضامند ہوگئیں۔ کہتے تھے کم سے کم ہفتے بھر تو تم وہاں رہوگی ہی۔ وہاں سہیلہ ہے، بھابی بیگم ہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اور عاصم ہے۔ اور ایک نہ ایک دن تمہیں وہاں جانا ہی ہے۔
سامیہ: (کانپتی ہوئی آواز میں) اباجی!
عاصم: مجھے اجازت ہے چچا میاں؟
سامیہ: اوہ۔۔۔ ہاں۔۔۔ تم جاناچاہتے ہو عاصم! ٹھیک ہے۔ چائے پینا چاہو تو رکو۔
عاصم: چائے کی خواہش نہیں ہے چچا میاں۔
سامیہ: کوئی بات نہیں۔ ٹھیک ہے۔ کل پھر آنا۔
(عاصم چلا جاتا ہے۔ اس کے قدموں کی چاپ دور ہوتی جاتی ہے۔)
اباجی: یہ تم نے اچھا نہیں کیا سامیہ!
سامیہ: جی اباجی۔
اباجی: تمہیں وہاں رک جانا چاہیے تھا۔ ہفتہ بھر کے لیے نہ سہی، ایک دو روز کے لیے ہی۔
سامیہ: (دھیرے سے) جی!
اباجی: میں نے اس گھرمیں جانے سے، عاصم سے ملنے سے، تمہیں کبھی نہیں روکا۔ بھابی بیگم، ناصر میاں، سہیلہ، سب کے سب تمہیں کتنا چاہتے ہیں۔ ناصر کب سے زور دے رہے ہیں۔ تاریخ مقرر کرنے کے لیے۔۔۔ میں نے سوچا تھا، تم بچپن سے اس گھر میں آتی جاتی رہی ہو۔ عاصم کی امی کے زمانے تک، تم کتنی بار وہاں جاکر رہی تھیں۔ تمہاری امی نے بھی کبھی نہیں روکا۔۔۔ اور تم کتنی خوش رہتی تھیں وہاں۔۔۔ تو میں۔۔۔ ناصر میاں سے مل کر تاریخ طے کرلوں۔
سامیہ: (بھرائی ہوئی آواز میں) کیسی تاریخ؟
اباجی: تمہاری اور عاصم کی شادی کی تاریخ۔
سامیہ: (کانپتی ہوئی آواز میں) ابھی نہیں۔۔۔ ابھی نہیں اباجی!
(سانسیں تیز تیز چلنے لگتی ہیں)
فیڈان:
(پس منظر سے ہیجان خیز موسیقی)
فیڈآؤٹ
عاصم: سامیہ! اتنا چھوٹا سا خط پہلے کبھی نہیں لکھا تھا۔ شاید آگے بھی نہیں لکھوں گا۔ تم نے ٹھیک ہی فیصلہ کیا۔ اور تم نے ہی تو کہا تھا کہ بیداری اور تنہائی ایک ہی سچ کے دو الگ الگ نام ہیں۔۔۔ دو اکیلے انسان ملنے کے بعد بھی اکیلے ہی رہتے ہیں۔ اکیلا پن توایک احساس ہے۔ ایک رویہ، کوئی کسی کی زندگی میں داخل ہوجائے تو بھی۔۔۔ اکیلاپن ختم تو نہیں ہوجاتا۔ اکیلے پن کی دیواریں بہت اونچی ہوتی ہیں۔ ٹھیک ہے۔ مجھے تم سے کوئی شکایت نہیں۔۔۔ عاصم۔
(پس منظر سے تیز رفتار موسیقی کی ایک لہر)
فیڈان:
رات کا سناٹا۔ ہوا کا شور۔ دور کہیں شیشے کا کوئی برتن ایک چھناکے کے ساتھ بکھر جاتا ہے۔
فیڈ آؤٹ
(دروازے پر لگاتار دستک)
اباجی: (باہر سے) سامیہ، سامیہ! بیٹے سامی!
(سامیہ اٹھ کردروازہ کھولتی ہے)
سامیہ: (ٹھہرے ہوئے لہجے میں) جی اباجی!
اباجی: یہ کیسی آواز تھی؟ تم کچھ پڑھ رہی تھیں؟
سامیہ: جی! (بھرائی ہوئی آواز میں) عاصم کا خط تھا۔
اباجی: خط؟ کیا ہوا؟ مجھے پوری بات بتاؤ!
سامیہ: (ٹھہرے ہوئے پرسکون لہجے میں) ہم دونوں نے اکیلے رہنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ شادی نہ کرنے کا۔
اباجی: (گھبراکر) تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے سامیہ؟
سامیہ: جی!
اباجی: مگر تم تو کہتی تھیں کہ تمہیں عاصم پسند ہے۔
سامیہ: جی!
اباجی: اور عاصم بھی کہتا تھا، یہی کہتا تھا۔ مجھ سے بھابی بیگم نے، ناصر نے، سہیلہ نے، سب نے یہی کہا تھا۔
سامیہ: جی!
اباجی: جی!جی!جی! تم صاف کیوں نہیں بتاتیں؟ تمہیں نیند تونہیں آرہی ہے؟
سامیہ: نیند۔۔۔ نیند تو پوری ہوچکی۔۔۔ کب کی پوری ہوچکی۔
اباجی: پہیلیاں نہ بجھاؤ سامی۔
سامیہ: (خواب ناک لہجے میں) ہم دونوں ہی شاید خواب دیکھ رہے تھے اور نیند میں تھے اور جو کچھ ہوا وہ سب کچھ غیر حقیقی تھا۔
اباجی: سامیہ!
سامیہ: (اسی رو میں) اور اب نیند ٹوٹ چکی ہے۔ اور میں جاگ رہی ہوں۔ اور اب اُس خواب کی پرچھائیں بھی باقی نہیں رہی۔ ہم نیند میں ایک دوسرے کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں، جاگتے میں تو ہم سب اپنے آپ کو اکیلا پاتے ہیں۔
اباجی: (ڈرا ڈرا سا لہجہ۔ کپکپاتی آواز) سامیہ!
سامیہ: آپ جائیے اباجی!اور سوجائیے۔ اور پریشان نہ ہوئیے میری خاطر۔۔۔ اور ناصر چچا سے کہہ دیجیے کہ وہ بھی پریشان نہ ہوں۔۔۔ جائیے۔۔۔ سوجائیے۔ ہوا کا شور بھی اب تھم چکا ہے۔ میں جاگ رہی ہوں، جاگ رہی ہوں۔
(دروازہ بند کرلیتی ہے)
پس منظر سے اختتامیہ موسیقی کی ایک تیز گت۔
فیڈآؤٹ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.