Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

زندگی کی طرف

شمیم حنفی

زندگی کی طرف

شمیم حنفی

MORE BYشمیم حنفی

    آوازیں

    خورشید: ایک خواب پرست نوجوان۔ نکما اور جذباتی۔

    ناصر: خورشید کا قریبی دوست۔ ہنسوڑ اور زندہ دل۔

    نوید: خورشید کا چھوٹا بھائی، انتہائی مستعد اور عملی نوجوان۔ خاندان کی مشترکہ تجارت کانگراں۔ خورشید کا شریک کار۔

    فوزیہ: خورشید کی چھوٹی بہن۔ کالج کی طالبہ۔

    امی: خورشید، نوید اور فوزیہ کی امی۔

    منشی جی: خورشید اور نوید کے کارخانے کے پرانے ملازم، خوشامدی اور چرب زبان۔

    اکاؤنٹنٹ: کارخانے کا محاسب۔ چالاک اور جوڑ توڑ والا ادھیڑ عمر کا آدمی۔

    بوائے: ہوٹل کا ملازم۔

    ہمایوں: فوزیہ کا منگیتر۔

    ایک اجنبی۔

    بچو بابا: چوکیدار (خورشید کے خاندان کا بوڑھا، خانہ زاد ملازم)

    (ابتدائی موسیقی۔۔۔ فیڈ آؤٹ کے ساتھ ہی خورشید میز پر زور سے کتاب رکھتا ہے، ایک طویل جمائی لیتا ہے اور سگریٹ سلگانے کے لیے ماچس جلاتا ہے۔۔۔)

    خورشید: (چند ثانیوں کے وقفے کے بعد۔۔۔ دھیمے سروں میں)

    شام آئی، صحنِ جاں میں خوف کا بستر لگا

    شام آئی، صحن جاں میں خوف کا بستر لگا

    مجھ کو اپنی روح کی ویرانیوں سے ڈر لگا

    مجھ کو اپنی روح کی ویرانیوں سے ڈر لگا

    شام آئی صحن جاں میں خوف کا بستر لگا

    (دروازے پر دستک، خورشید چونک کر رک جاتا ہے، پھر اٹھ کر دروازہ کھولتا ہے۔)

    ناصر: (اندر آتے ہوئے خورشید کی پیٹھ پر ایک دھول جماتا ہے) الو کی دم، ڈرپوک کہیں کے۔۔۔ (منہ بناکر) ’مجھ کو اپنی روح کی ویرانیوں سے ڈرلگا۔۔۔ ہونہہ۔ اب کوئی پوچھے کہ صاحب، یہ روح مبارک اتنی ویران کیوں واقع ہوئی ہے کہ آپ ڈرے جارہے ہیں بتائیے۔۔۔

    خورشید: (مضمحل انداز میں) بکواس شروع کردی تم نے ناصر!

    ناصر: ہر دم خواب دیکھتے رہے تو آنکھیں تھک جائیں گی خورشید۔۔۔ ذرا باہر نکلو۔ چلو، ایک چکر سول لائنس کا لگا آئیں۔

    خورشید: سول لائنس؟ سول لائنس میں کیا رکھا ہے؟

    ناصر: (جھنجھلاکر) میں تمہاری طرح الو تو ہوں نہیں کہ اس کال کوٹھری میں پڑا فلسفیانہ ذکر و فکر کرتا رہوں۔ دنیا اس کمرے سے باہر بھی ہے۔

    خورشید: (دھیمے لہجے میں) باہر ی دنیا کا تماشہ اس وقت دیکھنا چاہیے جب آنکھیں اپنی دید سے اکتا چکی ہوں۔ میں تو ابھی اپنی ہی ذات کے صحرا میں بھٹک رہا ہوں۔

    ناصر: (قہقہہ لگاکر) یارخورشید!اس قسم کے ڈائیلاگ تو بولا نہ کرو۔ خدا کی قسم ہنسی ضبط نہیں ہوتی۔ امے آدمی ہوکر چراگاہ۔ چلو، اٹھو، باہر نکلو۔۔۔

    خورشید: (اٹھتے ہوئے) چلتے ہیں، لیکن یہ سول لائنس ہی کی قید کیوں ہے؟

    ناصر: پھر کیا قبرستان کی سیر کی جائے؟

    خورشید: (کھوئے ہوئے لہجے میں) قبرستان!ایک وہی تو شہر ہے جو کبھی نہ اجڑے گا۔ وہاں مجھے کبھی ویرانی کا احساس نہیں ہوتا۔

    ناصر: (طنزیہ) جی ہاں،!جی ہاں!ویرانی کا احساس تو سول لائنس میں ہوتا ہے۔۔۔ نیون لائٹس، جگ مگ جگ مگ کرتے منظر، خوبصورت زرق برق چہرے۔۔۔ توبہ توبہ، کیسی ویرانی ہوتی ہے۔۔۔ (قہقہہ لگاکر) اور قبرستان؟ جی ہاں! قبرستان میں کیا چہل پہل رہتی ہے۔ ہر قبر میں ایک انجر پنجر۔۔۔ اور ایک ہی کیوں۔ خدا جانے کتنے ایک کے اوپر ایک دفن کردیے گئے ہوں گے۔ مردوں کا کال تو ہے نہیں۔۔۔ پھر جھینگروں کا نغمہ سرمدی اور کسی درخت کی لنڈ منڈ شاخ سے لٹکا ہوا چمگادڑ۔ پھر اس بستی میں رہ رہ کر گونجتی ہوئی الو کی مفکرانہ صدا۔۔۔ سبحان اللہ کیا چہل پہل رہتی ہے؟ (ہنستا ہے)

    (خورشید اضطراب آمیز انداز میں کرسی گھسیٹ کر بیٹھ جاتا ہے اور سگریٹ سلگاتا ہے)

    خورشید: (افسردہ لہجے میں) تم نہیں سمجھ سکتے۔ نہیں سمجھ سکتے ناصر! کوئی کچھ نہیں سمجھتا۔ نہ امی نہ فوزیہ نہ نوید۔ کوئی نہیں سمجھتا۔

    ناصر: (بیٹھتے ہوئے) کیا نہیں سمجھتے؟

    خورشید: یہی کہ چیزیں جیسی دکھائی دیتی ہیں ویسی ہوتیں بھی تو دنیا کا رنگ کچھ اور ہوتا۔ تم سب کیا جانو کہ شہر کتنے ویران ہیں؟ چہرے کتنے ویران ہیں؟ آنکھیں کتنی ویران ہیں؟ کھنڈر نہ ہوں تو اس شہر میں جینا دشوار ہوجائے۔

    (ناصر قہقہہ لگاتا ہے)

    خورشید: (افسردگی سے) تم نہیں جانتے کہ قہقہے کتنے ویران ہوتے ہیں۔ روشنی کتنی سیاہ ہوتی ہے۔ بستیاں کتنی اجاڑ ہیں۔۔۔!

    ناصر: (اچانک اٹھ کر) اچھا اب بکواس بندکرو، باہر چلو!

    خورشید: باہر؟ باہر کیا رکھا ہے؟ اور اندر کیا کچھ نہیں ہے؟

    ناصر: (زور سے) اندر صرف ویرانی ہے۔ تم۔۔۔ تم۔۔۔ نکمے اور منحوس آدمی۔۔۔ تم اپنے وجود کی کال کوٹھری میں بیٹھے سوائے اندھیروں کے اور کیا دیکھ سکتے ہو۔۔۔ باہر چلو۔۔۔

    خورشید: کچھ دیر اور ٹھہرو۔۔۔ پھر چلتے ہیں۔

    ناصر: لیکن اب میں تمہاری بکواس سننے کے موڈ میں نہیں ہوں۔

    خورشید: (بہت افسردہ لہجے میں) تو کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو ناصر کہ میں بکواس کرتا ہوں؟

    ناصر: (تیقن کے ساتھ) ہاں! میں بھی یہی سمجھتا ہوں!

    خورشید: اور فوزیہ؟

    ناصر: فوزیہ بھی ٹھیک سمجھتی ہے۔

    خورشید: اور امی؟

    ناصر: امی بھی یہی سمجھتی ہیں۔

    خورشید: اور نوید۔۔۔؟

    ناصر: نوید بھی۔۔۔

    (اچانک بیچ ہی میں چیخ پڑتا ہے)

    خورشید: (بہت جذباتی ہوکر) بس کرو! بس کرو! تم سب میرے دشمن ہو۔۔۔ تم سب۔۔۔ (کھانسنے لگتا ہے)

    (اضطراب آمیز موسیقی کی ایک لہر)

    فیڈ آؤٹ

    فیڈ ان۔۔۔

    (مشینوں کا شور۔۔۔ پس منظر میں ملی جلی آوازیں۔۔۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے)

    نوید: (فون اٹھاکر) یس!نوید اسپیکنگ۔۔۔ جی ہاں! جی ہاں!مسٹر خورشید! ہاں! وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔۔۔ بزنس پارٹنر بھی۔۔۔ پھر۔۔۔ لیکن یہ کیا؟ مجھے EXPLAIN توکرنے دیجیے۔۔۔ مم میں۔۔۔ (دوسری طرف سے فون ڈس کنکٹ کردیا جاتا ہے)

    (نوید غصے میں ریسیور کریڈل پر پٹکتا ہے۔ اضطراب آمیز انداز میں گھنٹی بجاتا ہے۔ قریب آتے ہوئے پیروں کی چاپ۔۔۔ منشی جی اندر آتے ہیں۔۔۔)

    نوید: (تحکم آمیز انداز میں) منشی جی!

    منشی جی: (ہکلاکر) ح حضور!

    نوید: بیٹھ جائیے۔۔۔

    منشی جی: ح حضور! (بیٹھ جاتے ہیں)

    نوید: کل سہ پہر کو کوئی بزنس پارٹی آئی تھی؟

    منشی جی: ح حضور!

    نوید: اس نے کچھ آرڈر دینے چاہے تھے؟

    منشی جی: ح حضور!

    نوید: (جھنجھلاکر) یہ حضور حضور کی رٹ کیا لگا رکھی ہے؟ آپ درباریوں کے طور طریقے بدل نہیں سکتے؟

    منشی جی: ح حضور!

    نوید: (دانت پیس کر) میں کہتا ہوں یہ حضور حضور بند کیجیے اور مجھے صاف صاف بتائیے۔۔۔

    منشی جی: (سہم کر) ح ح حضور!

    نوید: (سرپکڑ کر) میرے خدا! بھائی صاحب نے تباہ کردیا ہے آپ سب کو۔۔۔ اس طرح تو کام چلنے سے رہا۔ اکاؤنٹنٹ کو بلائیے۔۔۔

    (منشی جی باہر جاتے ہیں۔ چند لمحوں کے بعد منشی جی اور اکاؤنٹنٹ ساتھ ساتھ اندرآتے ہیں)

    نوید: (بھاری آواز میں) بیٹھ جائیے۔۔۔

    (دونوں کرسیاں گھسیٹ کر بیٹھ جاتے ہیں)

    نوید: اکاؤنٹنٹ صاحب!آپ نے پچھلے چھ مہینوں کا حساب تیار کرلیا ہے؟

    اکاؤنٹنٹ: جی!

    نوید: قرض کی قسطیں ادا ہوگئی ہیں۔۔۔؟

    اکاؤنٹنٹ: قسطیں۔۔۔؟ ان کی ادائیگی کے لیے بینک سے مزید قرض لینا پڑے گا۔

    نوید: مزید قرض۔۔۔؟

    اکاؤنٹنٹ: جی ہاں! پچھلے تین مہینوں کی قسطیں ابھی بھیجی جانی ہیں۔

    نوید: (جھنجھلاکر) لیکن آپ نے یہ بات مجھ سے پہلے کیوں نہیں بتائی؟

    اکاؤنٹنٹ: بڑے صاحب کو بتادیا تھا۔

    نوید: اور وہ سارے نوٹس ا ن کی میز پر پڑے ہوں گے۔۔۔ (دانت پیس کر) لیکن آپ کو مجھ سے تو کہنا چاہیے تھا۔

    اکاؤنٹنٹ: بڑے صاحب نے کہا تھا کہ وہ آپ سے بات کرلیں گے۔۔۔

    نوید: (غصے میں) خورشید بھائی کو مجھ سے بات کرنے کی فرصت کب ہے؟ کہاں ہیں وہ؟

    (منشی جی ’’ح حضور‘‘ کہتے ہوئے اٹھ کر باہر جاتے ہیں۔ چند لمحوں بعد واپس آتے ہیں)

    منشی جی: (پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے) ح حضور یہ نوش فرمائیں۔۔۔

    نوید: (چیخ کر) یہ پانی کس گدھے نے منگوایا تھا آپ سے؟ آپ تو خورشید بھائی کو دیکھنے گئے تھے۔

    منشی جی: (سہم کر) ح حضور اپنے ہونٹوں سے یہ گلاس لگالیں تو عرض کروں۔۔۔

    نوید: کیا عرض کریں گے؟

    منشی جی: یہی کہ بڑے صاحب ابھی تشریف نہیں لائے۔۔۔ نصیب دشمناں کہیں طبیعت تو نہیں بگڑ گئی۔

    (نوید غصے میں گلاس ان کے ہاتھ سے لے کر زمین پر پھینک دیتا ہے۔ گلاس ٹوٹ جاتا ہے۔)

    نوید: (غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں) منشی جی آپ نے اس کاروبار کو سمجھ کیا رکھا ہے۔ یہ دربار داری۔۔۔ لفاظی، بے وقت کی راگنی، اس کا مطلب کیا ہے؟ آپ بھلے آدمیوں کی طرح باتیں نہیں کرسکتے؟

    منشی جی: ح حضور۔۔۔ پشتیں گزر گئیں اس ڈیوڑھی کی خدمت میں۔ پرانانمک خوار ہوں۔ آپ کے ابا حضور مرحوم، خدا ان کے درجات بلند فرمائے۔۔۔ بڑے قدرداں تھے اس غلام کے۔ فرماتے تھے۔۔۔

    نوید: (بیچ ہی میں) چپ ہوجائیے اور دفعان ہوئیے یہاں سے۔ جائیے۔ چلے جائیے۔ جب ضرورت ہوگی میں آپ کو بلالوں گا۔

    (منشی جی ’’ح حضور‘‘ کہتے ہوئے چلے جاتے ہیں)

    نوید: اکاؤنٹنٹ صاحب!

    اکاؤنٹنٹ: جی!

    نوید: گوشوارے لے آئیے۔۔۔

    (اکاؤنٹنٹ اٹھ کر باہر جاتا ہے۔ چند لمحوں بعد واپس آتا ہے۔ اس اثنا میں صرف گھڑی کی ٹک ٹک سنائی دیتی ہے)

    نوید: بیٹھ جائیے۔۔۔ (اکاؤنٹنٹ بیٹھ جاتا ہے)

    اکاؤنٹنٹ: یہ رہا گوشوارہ۔۔۔ (کاغذات بڑھاتا ہے) تین مہینے سے قسطیں نہیں بھیجی جاسکی ہیں۔

    نوید: کیوں؟

    اکاؤنٹنٹ: ملازموں کی تنخواہ نکالنا بھی مشکل تھا۔ کارخانہ بند ہوجاتا۔ روزمرہ خرچوں کے لیے کچھ رقم محفوظ رکھنی ہی تھی۔

    نوید: لیکن قسطوں کا کیا ہوگا؟

    اکاؤنٹنٹ: اس کے لیے بینک سے قرض لے لیا جائے۔

    نوید: مزید قرض؟

    اکاؤنٹنٹ: اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں۔

    نوید: (بھرائی ہوئی آواز میں) میرے خدا! اس طرح کام کیسے چلے گا؟ کل شام کو آپ تھے جب ایک نئی بزنس پارٹی آرڈرس لے کر آئی تھی۔

    اکاؤنٹنٹ: میں تھا۔

    نوید: انہوں نے اپنا آرڈر کینسل کردیا ہے۔

    اکاؤنٹنٹ: مجھے اس بات کا ڈر پہلے ہی تھا۔۔۔

    نوید: کیوں؟

    اکاؤنٹنٹ: بڑے صاحب نے کچھ زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ دوسرے کارخانہ داروں نے اپنے ریٹ گھٹادیے ہیں۔ ان کا مال بھی ہم سے گھٹیا ہوتا ہے۔ لیکن بہرحال۔۔۔ بڑے صاحب کو انہیں سمجھانا چاہیے تھا۔ بڑے صاحب۔۔۔

    نوید: (جھنجھلاکر) بڑے صاحب، بڑے صاحب، بڑے صاحب۔ اب بس کیجیے اور جائیے۔۔۔ گوشوارے چھوڑ جائیے۔

    (اکاؤنٹنٹ اٹھ کر چلا جاتا ہے۔ نوید بے قراری کے عالم میں کمرے ہی میں ٹہلنے لگتا ہے۔ پس منظر سے مشینوں کا شور۔۔۔ فیڈآؤٹ۔

    فیڈان۔۔۔)

    (ریستوران۔ موسیقی کی ہلکی ہلکی دھنیں۔۔۔ ملی جلی دھیمی آوازوں کا شور۔ ناصر اور خورشید ایک میز پربیٹھے ہوئے ہیں۔ خورشید سگریٹ جلاتا ہے)

    ناصر: یہ تم اتنی دیر سے سوچ کیا رہے ہو خورشید؟

    خورشید: (چونک کر) ایں؟ مجھ سے کچھ کہا؟

    ناصر: میں یہ پوچھ رہا تھا کہ اتنی دیر سے گم سم بیٹھے کیا سوچ رہے ہو؟

    خورشید: (کچھ سوچتے ہوئے) آں۔۔۔ اس وقت تو بس یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا سوچ رہا ہوں۔ (ایک جمائی لے کر) یار ناصر! یہ شام اتنی ظالم کیوں ہوتی ہے؟

    ناصر: شام؟

    خورشید: ہاں شام! سورج کے ساتھ ہی میرا دل بھی ڈوبنے لگتا ہے۔

    ناصر: کوئی عشق وشق کا چکر تو نہیں؟

    خورشید: دنیا کے کاروبار نے محبت کرنے کی نیکی بھی ہم سے چھین لی ناصر! محبت حساب کتاب سے الگ ہوکر کی جاتی ہے۔ اور اب کون سا تعلق ہے جو اتنا بے لوث ہو؟

    ناصر: (بزرگانہ انداز میں) میاں یہ محبت وحبت بھی نکموں کا کھیل تھی۔ اب فرصت کسے ہے؟

    خورشید: فرصت کسے کہ تیری تمنا کرے کوئی! غالب اب سے سو سال پہلے ہی دنیا کے طور سمجھ گئے تھے۔

    ناصر: سمجھے کیا خاک؟ عمر بھر اپنی حالت کا رونا روتے رہے۔

    خورشید: اچھا ہوا جو نہیں سمجھے ورنہ ہم دیوانِ غالب سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔

    ناصر: (چونک کر) فی الحال تو ہم چائے سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایک دم ٹھنڈی ہوگئی۔ دوسرا پاٹ (POT) منگواؤں؟

    خورشید: (دھیرے سے) ہاں!

    ناصر: (پکارتا ہے) بوائے، او بوائے۔۔۔ (چمچے سے پیالی کھنکاتا ہے)

    بوائے: (دور سے) آیا صاحب! (بوائے آتا ہے)

    ناصر: دیکھو! یہ چائے برف ہوچکی ہے۔ دوسرا پاٹ لاؤ۔۔۔

    بوائے: جی صاحب! (برتن سمیٹ کر واپس جاتا ہے)

    خورشید: تم ہمایوں سے ملے تھے؟

    ناصر: ملا تھا۔

    خورشید: کوئی بات ہوئی؟

    ناصر: ہاں! لیکن اس وقت چھوڑو۔

    خورشید: کیوں؟

    ناصر: میں تمہیں اور اداس کرنا نہیں چاہتا۔

    خورشید: میں اداسی سے ڈرتا نہیں ناصر! ایک وہی تو اپنی رفیق ہے۔

    (بوائے چائے کی ٹرے لے کر آتا ہے اور برتن میز پر جماتا ہے)

    بوائے: کچھ اور صاحب؟

    خورشید: نن۔۔۔ نہیں۔ (بوائے چلا جاتا ہے)

    خورشید: ہاں تو تم نے بتایا نہیں؟

    ناصر: کیا کروگے سن کر؟ تمہیں دکھ پہنچے گا۔

    خورشید: کیوں؟

    ناصر: ہمایوں کے گھر والے بھی پرلے درجے کے بنیے ثابت ہوئے۔ وہ شادی سے پہلے سارا حساب کتاب طے کرلینا چاہتے ہیں۔

    خورشید: حساب کتاب؟

    ناصر: ہاں! ان کے مطالبات کی فہرست خاصی طویل ہے۔

    خورشید: لیکن شادی تو دو افرادکا معاملہ ہے۔

    ناصر: تم اب تک پتا نہیں کس دنیا میں رہتے ہو۔۔۔ تمہیں اتنا بھی نہیں معلوم کہ اب رشتوں کے بھی دام لگتے ہیں۔ (اچانک غصے میں آجاتا ہے) خورشید! تم اتنے معصوم بھی نہیں کہ اتنی ذراسی بات نہ سمجھو۔ لیکن تم جان بوجھ کر سب کچھ تباہ کر رہے ہو۔

    خورشید: میں تباہ کر رہا ہوں۔۔۔؟

    ناصر: (اسی لہجے میں) ہاں تم اور صرف تم! تم سب کچھ جانتے ہو پھر بھی تمہیں ہوش نہیں آتا۔ فوزیہ کے جذبات تمہیں معلوم ہیں۔ ہمایوں کو بھی تم سمجھتے ہو۔ لیکن اس کے گھروالے۔۔۔!

    خورشید: تو کیا اب افراد اتنے آزاد بھی نہیں ہوتے؟

    ناصر: (دانت پیس کر) فرد!فرد!فرد! فرد کیا ہوتا ہے؟ ایک دم گدھا۔ سماجی مشین کے ایک بے نام، بے چہرہ پرزے کو تم خدا جانے کیا سمجھتے ہو؟ ہر فرد اس طرح پہچانا جاتا ہے کہ دوسروں کے لیے اس کی حیثیت کیا ہے۔ اس معاشرے کو، جس میں وہ جی رہا ہے، کس حدتک نفع یا نقصان پہنچانے کی صلاحیت اس میں موجود ہے۔ اور اگر یہ سب کچھ بھی نہیں تو پھر جینا محال ہے۔

    خورشید: (دکھے ہوئے لہجے میں) شاید اسی لیے تو ناصر، کچھ لوگ سانس لیتے ہیں لیکن زندہ دکھائی نہیں دیتے۔ اُف!تاریخ کی کتابیں نہ ہوں تو زندہ لوگوں سے شاید تعارف بھی نہ ہوسکے۔ مجھے وہ شہر بہت اجاڑ دکھائی دیتے ہیں ناصر، جہاں کھنڈر نہ ہوں۔۔۔

    ناصر: کھنڈر!

    خورشید: ہاں کم از کم وہاں یادوں کی انجمن تو آباد دکھائی دیتی ہے۔

    ناصر: (غصے میں) تم اپنے آپ کو بھی تباہ کر رہے ہو اور انہیں بھی جنہوں نے تمہارا کچھ نہیں بگاڑا۔

    خورشید: (کانپتی ہوئی آواز میں) ناصر!

    ناصر: تم اپنے ہی دشمن نہیں ان کے دشمن بھی ہو جن کے دلوں میں تمہارے لیے صرف محبت ہے۔

    خورشید: (جذباتی ہوکر) ناصر!

    ناصر: تم سب کچھ اجاڑدوگے! سب کچھ، اور جب تمہاری آنکھیں کھلیں گی، اس وقت بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

    خورشید: (چیخ کر) ناصر۔۔۔

    (پس منظر سے لرزہ خیز موسیقی کی ایک لہر)

    ناصر: چیخومت! یہ تمہارا کمرہ نہیں ریستوراں ہے۔ چائے پیو اور چلو۔ پھر چل کر خوب چیخ لینا۔

    خورشید: (ہانپتے ہوئے) چائے؟

    ناصر: ہاں چائے پی لو۔۔۔ لیکن یہ پاٹ بھی ٹھنڈا ہوچکا۔

    خورشید: (بڑبڑاتے ہوئے) یہ پاٹ بھی ٹھنڈا ہوچکا۔ اٹھو! میں چائے نہیں پیوں گا۔ سینے میں یوں ہی آگ دہک رہی ہے۔۔۔ اٹھو! اٹھونا صر!

    (پس منظر سے لرزہ خیز موسیقی۔۔۔)

    فیڈآؤٹ۔

    فیڈان:

    (گھڑیال میں دن کے تین بجتے ہیں۔ باہر لوکا شور۔ گرتے ہوئے پتوں کی کھڑکھڑاہٹ۔ بچو بابا چھڑی ٹیکتے ہوئے تھکے تھکے قدموں سے اندر آتے ہیں۔۔۔)

    امی: (کمرے کے اندر سے) کون؟

    بچو بابا: (تھکی ہوئی آواز میں) یہ ہم ہیں۔ (کھانسنے لگتے ہیں)

    امی: بچو بابا! کیا بات ہے؟ (کمزور آواز میں) تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟

    بچو بابا: ہاں بہو! ہم ٹھیک ہیں۔ بٹیا کیسی ہیں؟ (کھانستے ہیں)

    امی: اندر آجاؤ۔۔۔ (بچو بابا اندر آتے ہیں)

    امی: فوزیہ۔۔۔ ٹھیک ہے اب۔ ٹھیک ہے بچو بابا۔ ابھی نوید نہیں آیا۔

    بچو بابا: نوید بھیا ابھی نہیں آئے بہو۔ کار کھانے میں ہوں گے۔ کہو تو جاکے ہم بلائے لائیں۔

    امی: اور خورشید؟

    بچوبابا: بڑے بھیا کا تو صبح سے کچھ حال نہیں ملا۔ کہیں منڈرائے رہے ہوئیں گے۔

    امی: کیا آج بھی وہ کارخانے نہیں گیا۔

    بچوبابا: ناہیں! کل نوید بھیا سے کچھ گرماگرمی ہوگئی رہی۔ بہو! تم سمجھاؤ ذرا دونوں کو۔ بڑے کا مان بڑا۔ نوید بھیا چھوٹے ہیں۔ وہی چھوٹے بن جائیں۔ ای کہا سنی سے کچھ نہ ہوئے گا۔ ہمری مانو تو کچھ روز کے لیے نوید بھیا کو گانو بھیج دیو۔ سر پر آئے گی تو بڑے بھیا آپ ہی ہوس میں آئے جائیں گے۔

    امی: (گھبراکر) ایسا نہ کہو بچو بابا۔ اگر نوید کہیں خفا ہوکر چلا گیا تو۔۔۔

    بچو بابا: (کھانستے ہوئے) ان کی مجال جو تم ہوں سے کھپھا ہوئی جائیں۔ تم نہ کہہ سکو تو پھر بہوہم کہے دیت ہیں۔ ہمری بات وہ نہ ٹالیں گے۔

    امی: نہیں بچو بابا! نہیں!ایسا مت کہو۔ میں خورشید کو سمجھاؤں گی۔ میں سمجھاؤں گی اسے۔ اور اگر اب بھی وہ نہ سمجھا تو میں خود چلی جاؤں گی گاؤں۔ فوزیہ کو لے کر۔ اب یہاں رکھا ہی کیا ہے۔ لے دے کر یہ حویلی بچی تھی۔ وہ بھی رہن رکھ دی گئی۔ پرانے نوکر ایک ایک کرکے رخصت ہوگئے۔ قبروں کے کتبے بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ ان کی مرمت کا دھیان بھی نہیں آتا بدنصیبوں کو۔

    بچو بابا: ایسا نہ کہو بہو (کھانسی کا دورہ پڑتا ہے) ایسا نہ کہو (گلوگیر لہجے میں) ابھی پرکھن کا نام لوگ بھولے تھوڑے ہیں۔ اپنے جی کو ڈھارس دیو بہو! اس ڈیوڑھی کا مان ابھی باقی ہے۔

    (قریب آتی ہوئی پیروں کی چاپ)

    نوید اندر آتا ہے۔۔۔

    نوید: (بجھے ہوئے طنزیہ لہجے میں) تم سب یادوں کے سہارے زندہ ہو بچو بابا۔

    امی: (کانپتی ہوئی کمزور آواز میں) نوید!

    نوید: (اسی رَو میں) تم سب کھوئے ہوئے دنوں کی پرچھائیں سے لپٹے ہوئے ہو۔

    امی: نوید۔۔۔!

    نوید: تم سب بجھتے ہوئے رنگوں پر نظر گاڑے ہوئے ہو۔

    امی: (جذباتی، کمزور، کانپتی ہوئی آواز) نوید!

    نوید: تم سب راکھ میں چنگاریاں ڈھونڈ رہے ہو۔

    امی: (چیخ کر)نوید!

    نوید: اب رہ کیا گیا ہے امی! میں کب تک تمہیں جھوٹی تسلیاں دیتا رہوں۔ کب تک بھلاوے میں رہوگی۔ کاروبار چوپٹ ہوچکا۔ آج کارخانہ بندکرنا پڑا۔ اب اتنا بھی نہیں رہ گیا تھا کہ ہم مزدوروں کو تنخواہ دے سکیں۔ کاریگروں نے کام پر آنا بند کردیا۔ حویلی رہن رکھی جاچکی ہے۔ رہ کیا گیا ہے اب؟

    امی: قبروں کے کتبے۔۔۔

    نوید: (اچانک غصے میں) امی تم کب تک کتبوں کی حفاظت کرتی رہوگی۔ آدمی ٹوٹ جاتے ہیں پھر قبروں کا کیا رونا!

    امی: (جذباتی لہجے میں) نوید۔۔۔ (رونے لگتی ہیں)

    نوید: (گلوگیر لہجے میں) چپ ہوجاؤ امی چپ ہوجاؤ۔ کہیں فوزیہ کی آنکھ کھل گئی تو۔

    امی: (روتے ہوئے۔۔۔ بہت مشکل سے ضبط کرتی ہیں) فوزیہ۔۔۔ ابھی سو رہی ہے۔

    نوید: (ہارے ہوئے لہجے میں) سونے دو اسے امی! وہ خواب دیکھ رہی ہوگی۔۔۔ اسے سونے دو۔ جاگنے کے لیے ہم سب بہت ہیں۔

    بچوبابا: (کھانسی کا دورہ پڑتا ہے) بب بیٹا!اس ڈیوڑھی کا مان!

    نوید: (جلدی سے) بچو بابا!

    بچو بابا: اس ڈیورھی پر دو دو ہاتھی جھولتے رہے بیٹا!اب کل کی ہی تو بات ہے۔

    نوید: (زچ ہوکر)افوہ بچوبابا! تم تو جاگتی آنکھوں سے بھی خواب دیکھنے لگتے ہو۔

    امی: (مضمحل لہجے میں) خورشیدکہاں ہے؟

    نوید: (دل شکستہ لہجے میں) میں ان سے کچھ نہ کہوں گا امی! کچھ بھی نہیں۔ کل میں نے ان سے گستاخی کی تھی۔ رات بھر مجھے نیند نہیں آئی۔ ہم سب اب گانو چلتے ہیں۔

    امی: گانو؟

    نوید: ہاں گانو! مٹی اتنی بے مروت نہیں ہوتی امی! ہمارے کھیت، باغ، بانسوں کا جنگل۔۔۔ ہمارے مویشی۔ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔

    امی: اور قبروں کے کتبے۔۔۔

    نوید: (محبت آمیز لیکن افسردہ لہجے میں) تم کتنی بھولی ہو امی! ہم سنبھل گئے تو ہمارے پرکھوں کی قبریں بھی بن جائیں گی۔ تم ان کااتنا دکھ کیوں کرتی ہو۔ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گاامی (جھوٹی ہنسی ہنس کر) سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔

    امی: اور ہمایوں؟

    نوید: ہمایوں بھی۔ تم فکر نہ کرو امی۔ فوزیہ کتنی معصوم ہے۔۔۔ اس سے کچھ نہ کہنا۔

    امی: لیکن وہ اب ایسی بچی بھی نہیں کہ کچھ نہ سمجھے۔ پھر اس کی پڑھائی؟

    نوید: پڑھائی؟ پڑھائی کا کیا ہے؟ اگر وہ چاہے تو اسے ہوسٹل میں چھوڑا جاسکتا ہے۔

    امی: پھر تو وہ سب کچھ جان جائے گا۔ سب کچھ۔ وہ بھی جو اسے نہیں جاننا چاہیے۔

    نوید: میں اسے سمجھادوں گا امی! ہم گانو چلتے ہیں۔ ہم سب۔

    امی: (افسردہ لہجے میں) اور خورشید۔۔۔ (اچانک روپڑتی ہیں)

    (پس منظر سے حزینہ موسیقی کی آواز لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی جاتی ہے)

    فیڈ آؤٹ۔

    فیڈان:

    (پارک کا ایک گوشہ۔ ایک طرف سے پرندوں کے چہچہے۔ فوزیہ کے قدموں کی چاپ لمحہ بہ لمحہ قریب آتی ہوئی۔۔۔)

    ہمایوں: (خوش ہوکر) فوزیہ!

    فوزیہ: ہمایوں۔۔۔

    ہمایوں: بہت دیر لگادی تم نے۔ میں کب سے آنکھیں بچھائے بیٹھا ہوں یہاں۔

    فوزیہ: (رک رک کر) ہم کیا کرتے ہمایوں۔ بڑی مشکل سے جان چھڑا کر آئے ہیں۔ صوفیہ، سیما اور نرگس بھی ساتھ تھیں۔ انہیں ٹالنا آسان نہیں تھا۔

    ہمایوں: کیا کہا تم نے ان سے؟

    فوزیہ: (شرمائی ہوئی ہنسی کے ساتھ) یہی کہ ہمایوں سے ملنے جارہے ہیں۔

    ہمایوں: (گھبراکر) کیا واقعی؟

    فوزیہ: اللہ ہمایوں! تم بھی کتنے بزدل ہو۔ (ہنستی ہے)

    ہمایوں: میں بزدل نہیں ہوں فوزیہ۔ لل لیکن۔۔۔

    فوزیہ: (جلدی سے) لیکن کیا؟ تمہاری جان سوکھی جارہی ہے۔ اور ہمیں دیکھو۔ کتنے اطمینان سے تم سے ملنے چلے آئے۔ (ہنسی)

    ہمایوں: (سنجیدہ ہوکر) تم مجھ سے بدگمان نہ ہونا فوزیہ۔ تم ابا جی کا مزاج جانتی ہو۔

    فوزیہ: (ہنس کر) اور تمہارا بھی!

    ہمایوں: (افسردہ لہجے میں) تمہاری بدگمانی کس طرح دور کروں فو زیہ؟

    فوزیہ: (ہنس کر) ارے! تم تو واقعی سنجیدہ ہوتے جارہے ہو۔ ہم نے تو بس یوں ہی کہہ دیا تھا۔

    (ایک لمحے کا وقفہ)

    ہمایوں: تم نے آج بلایا کیوں تھا فوزیہ؟

    فوزیہ: کیوں؟ کیا نہ بلاتے؟

    ہمایوں: پھر بھی۔۔۔ بتاؤ تو۔

    فوزیہ: (ہنس کر) بات یہ ہے کہ کل ہم گانو جارہے ہیں۔

    ہمایوں: (چونک کر) گانو! گانو کیوں؟

    فوزیہ: یوں ہی!

    ہمایوں: واپسی کب تک ہوگی؟

    فوزیہ: جانے کب؟ ہم کیا بتاسکتے ہیں؟

    ہمایوں: (گھبراکر) کیوں؟ یہ بیٹھے بٹھائے گانو جانے کی کیا سوجھی؟

    فوزیہ: (ٹھہر ٹھہر کر، افسردہ لہجے میں) تمہیں تو گھر کے قصوں کا پتا ہے ہی۔ بھائی جان اپنی روش چھوڑ نہیں سکتے۔ نوید بھائی بھی کیا کریں۔ سارا کاروبار چوپٹ ہوگیا۔ اور تمہارے اباجی ہیں کہ۔۔۔ (کہتے کہتے رک جاتی ہے)

    ہمایوں: (قدرے تیز لہجے میں) کچھ نہیں سمجھتے یہ لوگ فوزیہ۔ کچھ بھی تو نہیں سمجھتے۔۔۔ ہمارے بزرگ ایک طرف تو روایتوں اور قدروں کی بات کرتے ہیں، دوسری طرف دنیا کے معاملات میں کتنی ہلکی باتیں کرتے ہیں۔

    فوزیہ: بڑوں کو الزام مت دو ہمایوں۔ انہیں برا نہ کہو۔

    ہمایوں: (اسی لہجے میں) میں الزام نہیں دے رہا ہوں فوزیہ۔ سچی بات کہہ رہا ہوں۔ اباجی کے پاس کیا نہیں ہے۔ کوٹھیاں، موٹریں، نوکر چاکر، گھر بھرا ہوا ہے، لیکن۔

    فوزیہ: (افسردگی سے) ہمایوں!

    ہمایوں: اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ ان دنو ں تمہارے گھر کی حالت کیا ہے؟

    فوزیہ: (غصے میں) ہماری حالت جیسی بھی ہو۔ ہم یہ نہیں چاہتے کہ تم ہم پر ترس کھاؤ۔

    ہمایوں: (جذباتی ہوکر) مجھے معاف کردو فوزیہ، معاف کردو۔ ایک بیہودہ بات زبان سے نکل گئی۔

    فوزیہ: تمہیں تو اس طرح نہیں سوچنا چاہیے ہمایوں۔

    ہمایوں: معاف کردو فوزیہ۔

    فوزیہ: (غصے میں)اور اگر تمہارے گھر والے ایسے ہیں اور تم ان کے سامنے زبان بھی نہیں کھول سکتے تو ٹھیک ہے۔۔۔ آج کے بعد ہماری صورت نہ دیکھنا۔

    ہمایوں: (ملتجیانہ لہجے میں) فوزیہ۔۔۔!

    فوزیہ: تمہارے گھر والے جیسے بھی ہیں، یہ ان کی مجبوری ہے۔ لیکن کیا تم بھی اتنے مجبور ہوکہ۔۔۔

    ہمایوں: (جلدی سے) فوزیہ۔۔۔

    فوزیہ: (کانپتی ہوئی آواز میں) ہمایوں مم میں۔۔۔ (روپڑتی ہے)

    (پس منظر سے حزینہ موسیقی کی ایک طویل لہر جو رفتہ رفتہ معدوم ہوجاتی ہے)

    فیڈان:

    (بچوبابا لاٹھی ٹیکتے ہوئے برآمدے سے گزرتے ہیں۔ سناٹے میں فرش پر ان کے قدموں اور لاٹھی کی ٹھک ٹھک کی مسلسل آوازیں لمحہ بہ لمحہ دور ہوتی جاتی ہیں۔ اسی اثنامیں کوئی ٹین کے پھاٹک کو زور زور سے دستک دیتا ہے)

    بچو بابا: (دور سے) ای کون ہے؟

    (دستک کی مسلسل آواز۔ بچو بابا لاٹھی ٹیکتے ہوئے پھاٹک کی طرف جاتے ہیں اور کنڈی کھولتے ہیں۔ پھاٹک کھلتا ہے)

    اجنبی: اس حویلی میں کوئی ہے؟

    بچو بابا: (حیرانی سے) پہلے ای بتاؤ کہ تم کون ہو؟

    اجنبی: (ہکلاکر) مم۔۔۔ میں ایک اجنبی ہوں!

    بچو بابا: اجنبی۔۔۔ (حیرت سے) ای نام تو ہم پہلی دپھا سن رہے ہیں۔ تم کہاں سے آئے رہے ہو؟ کا کرنے کو آئے ہو؟

    اجنبی: یہ حویلی خان بہادر جاوید علی خاں مرحوم کی ہے؟

    بچو بابا: (جلدی سے) اونہہ برے سرکار! ہاں ہاں!اور اب کہاں ہیں؟ پرسال بڑے سرکار دل کا دورہ پڑنے سے کھتم ہوئے گئے رہیں۔

    اجنبی: (حیرت سے) اف! میرے خدا! (رک کر) ان کے گھروالے تو ہوں گے۔

    بچو بابا: گھر ما اب کون ہے؟ بڑے بھیا رہتے ہیں تو ان کا کچھ ٹھیک نہیں۔ کب آویں کب جاویں۔ چھوٹے بھیا، بہو اور بیٹا گانو چلے گئے، اب یہاں تھورے بیٹھے ہیں۔

    اجنبی: لیکن وہ لوگ چلے کیوں گئے؟

    بچو بابا: تم بحث کاہے کا کر رہے ہو؟ تم سے مطبل؟ ان کی گھریلو بات ہے۔ اب یہ دیکھو! اس حویلی کے درواجے پر ہاتھی جھولتے رہیں۔ کامان رہی کاسان! کتنے بے سہارا لوگ بڑے سرکار کے سہارے جندگی کاٹ دیتے رہیں، سکھ چین کے ساتھ۔ سارے سہر میں ان کی دھوم رہی۔ پر اب کا رہ گیا ہے؟ بڑے بھیا کی تو مت ماری گئی ہے۔۔۔

    اجنبی: بڑے بھیا کون؟

    بچو بابا: ارے وہی کھرسید بھیا اور کون!

    اجنبی: (اچانک خوش ہوکر) خورشید؟خورشید؟ میں ا سی سے تو ملنے آیا ہوں۔

    بچوبابا: (کچھ سوچ کر) تمہارا جی چاہے تو انتجار کرلیو۔ جی چاہے گھوم پھرآؤ۔

    اجنبی: نہیں! میں یہیں اس کاانتظار کروں گا۔

    بچوبابا: تو آؤ ہمرے ساتھ۔۔۔ چلے آؤ۔ تمہارا نام کاہے بھیا۔ جرا ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔

    اجنبی: سید۔۔۔ سید علی!

    بچوبابا: (دھیرے سے) سید علی!

    (بچو بابا کی لاٹھی کی کھٹ کھٹ دور تک ساتھ سنائی دیتی ہے۔ دور کوئی دروازہ کھلتا ہے، بند ہوتا ہے۔۔۔ بچو بابا پھر لاٹھی ٹیکتے ہوئے اپنی کوٹھری کی طرف جاتے ہیں۔)

    فیڈ آؤٹ۔

    فیڈ ان:

    سناٹا۔

    (خورشیدماچس جلاکر سگریٹ سلگاتا ہے۔ دھیرے دھیرے کمرے میں ٹہلنا شروع کرتا ہے)

    خورشید: (بہت دھیمے سروں میں)

    کس کو پتا چلے گا کہ اک دن گزر گیا

    کس کو پتا چلے گا کہ اک دن گزرگا

    دستک سرائے دل پہ اگر شام بھی نہ دے

    دستک سرائے دل پہ اگر شام بھی نہ دے

    میں بے بساط ہوں تو مجھے نام بھی نہ دے

    دستک سرائے دل پہ اگر شام بھی نہ دے

    (دروازے پر زوروں کی دستک)

    خورشید: (رک کر) کون؟

    ناصر: (باہر سے) دروازہ کھولو کمبخت۔۔۔ میں ہوں۔

    (خورشید دروازہ کھولتا ہے)

    ناصر: (اندر آتے ہوئے) شام شام شام! یہ شام تمہارا آسیب کیوں بن گئی ہے؟

    (کرسی گھسیٹ کر بیٹھتا ہے) چلو! باہر نکلو! تمہیں گھٹن کااحساس نہیں ہوتا۔

    خورشید: (بھرائی ہوئی آواز میں) ہوتا ہے!

    ناصر: پھر باہرکیوں نہیں نکلتے؟

    خورشید: باہر بھی ہوتا ہے۔۔۔

    ناصر: تم گدھے ہو۔۔۔ (ہنس کر) آخر تمہاری سمجھ میں آتا کیوں نہیں؟

    خورشید: (دوسری سگریٹ جلاتا ہے)

    ناصر: (غصے میں) تم بولتے کیوں نہیں؟

    خورشید: کیا خاموشی کچھ کہنے سے قاصر ہے؟ کچھ کہنے کے لیے لفظوں کی شرط تم ضروری کیوں سمجھتے ہو؟

    ناصر: (دانت پیس کر) دیکھو خورشید! میں تھپڑ ماردوں گا۔ میرے سامنے بکواس مت کیا کرو۔ آج تم دن بھر گھر ہی میں گھسے بیٹھے رہے؟ تم نے سہ پہر کو آنے کے لیے کہا تھا؟

    خورشید: (دھیرے سے) نہیں آسکا۔

    ناصر: کیوں؟

    خورشید: سید علی آگیا تھا۔

    ناصر: سید علی؟ سید علی کون؟

    خورشید: اس اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن!

    ناصر: (زچ ہوکر) افوہ! تم صاف صاف بات کیوں نہیں کرتے؟

    خورشید: ابا مرحوم کے ایک دوست تھے، میراحمد علی۔۔۔

    ناصر: میر احمد علی؟ وہ تو نہیں جو رحمت نگر کے تعلقہ دار تھے۔

    خورشید: ہاں وہی! میراحمد علی کے والد تھے میر رحمت علی۔ سید علی میر احمد علی مرحوم کا بیٹا ہے۔

    ناصر: پھر؟

    خورشید: پھر کیا؟ میں اب تک یہی سمجھتا رہا ناصر کہ زوال ہر شخص کا، ہر حقیقت کا، ہرمظہر کامقدر ہے۔ تمہیں معلوم ہوگا کہ میر احمد علی نے اپنی آخری عمر کس عسرت میں گزاری۔ دانے دانے کو محتاج ہوگئے تھے۔ اب رحمت نگر کی حویلی اور میر احمد علی کے آبائی قبرستان میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ لیکن سید علی۔۔۔ (رک جاتا ہے)

    ناصر: (جلدی سے) کہو کہو! تم چپ کیوں ہوگئے؟

    خورشید: (دھیمے لہجے میں) سید علی بھی ایسا ہی لاابالی تھا۔ اس نے اپنے آبائی وقار کی گرتی ہوئی دیوار کو سہارا دینے کا کوئی جتن نہیں کیا۔ حالات خراب ہوتے گئے اور ایک دن وہ گھر سے بھاگ کھڑا ہوا۔

    ناصر: پھر؟

    خورشید: پھر اس نے زندگی کا ایک نیا راستہ اختیار کرلیا۔۔۔ گھر جب چھوٹ گیا تو اسے گھر والے یاد آئے۔ اس نے بہت تھوڑے پیسے سے دلی میں ایک کاروبار شروع کیا۔ آج وہ اچھی خاصی حیثیت کا مالک ہے۔ اپنے کارخانے میں خود مزدوروں کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کے گھر والے اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ کوئی دس برس بعد اسے ان لوگوں کا خیال آیا جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور وہ کل رات یہاں آیا۔ آج دن بھر میں اسی کے ساتھ تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ رحمت نگر گیا ہے۔

    ناصر: کیوں؟

    خورشید: اپنی حویلی اور اپنے خاندانی قبرستان کی مرمت کروانے کے لیے۔ اس کے پاس نئے کتبے تھے۔ میر احمد علی اور میر رحمت علی کی قبروں کے لیے۔

    ناصر: کتبے؟

    خورشید: ہاں کتبے۔ وہ چاہتاہے کہ قبروں کا نشان باقی رہے۔

    (چند لمحوں کی خاموشی۔ دیوار گیر گھڑی کی مسلسل ٹک ٹک)

    خورشید: اور میں بھی یہی چاہتا ہوں ناصر۔۔۔

    (خاموشی۔ دور بچو بابا کے لاٹھی ٹیکتے ہوئے چلنے کی مسلسل آوازیں)

    فیڈآؤٹ۔

    فیڈان:

    وقت کے گزرنے کا تاثر۔

    (موسیقی کی ایک طربیہ لہر۔۔۔ ہواؤں کا شور۔ پتے کھڑکھڑاتے ہیں۔ پرندوں کی آوازیں۔۔۔ کھیت میں ٹریکٹر چل رہا ہے۔۔۔ دور سے آتی ہوئی کسی بیل گاڑی کی چرچراہٹ، بیلوں کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹیاں بجتی ہیں۔)

    امی: (پکارتے ہوئے) فوزیہ۔۔۔ اوفوزیہ!

    فوزیہ: (دور سے) آرہے ہیں امی!

    (بھاگتی ہوئی آتی ہے۔ سانس پھول رہا ہے۔)

    فوزیہ: (خود کو سنبھالتے ہوئے) جی امی!

    امی: (رک کر) کہاں تھیں؟

    فوزیہ: (شرمائی ہوئی ہنسی) اللہ امی۔ آپ تو۔۔۔

    امی: (جلدی سے) اوہ! اچھا۔ یہ بتاؤ کہ سامان ٹھیک کرلیا۔

    فوزیہ: ہمیں کرنا ہی کیا ہے۔ کپڑوں کے کچھ جوڑے رکھ لیں گے۔ بس۔

    امی: اور کتابیں؟

    فوزیہ: وہ سب پہلے ہی رکھ لی ہیں۔۔۔

    امی: تو تم امتحان کے بعد واپس آؤگی یا وہیں رک جاؤگی؟

    فوزیہ: (دھیرے سے شرماکر) اب یہ ہم کیا جانیں۔۔۔؟

    امی: اوہ۔۔۔ اچھا خیر۔۔۔ دیکھاجائے گا۔ وقت کتنا ہوا ہے؟

    فوزیہ: دو بج گئے!

    امی: دو بج گئے؟

    فوزیہ: جی!

    امی: افوہ! تم لوگ کتنی لاپروا ہو۔ دسترخوان بچھواؤ۔

    فوزیہ: بھائی جان ابھی تک نہیں آئے۔۔۔

    امی: کون؟ خورشید؟ ابھی نہیں آیا۔۔۔؟ کہاں ہے؟

    فوزیہ: ٹیوب ویل پر۔۔۔ صبح سے وہیں ہیں۔

    امی: صبح؟ لیکن میں نے صبح بھی اسے نہیں دیکھا۔

    فوزیہ: وہ تڑکے ہی چلے گئے تھے۔ ہم جاگ رہے تھے اس وقت۔ ان کے لیے چائے بنادی تھی۔

    امی: اورناشتہ؟

    فوزیہ: کباب تل دیے تھے اور دو پراٹھے ڈال دیے تھے۔

    امی: (خوش ہوکر) شاباش! میں تو صبح سے ہلکان ہو رہی تھی کہ اس نے شاید اب تک منہ میں کچھ نہیں ڈالا۔ خیر۔ دسترخوان پر کھانا لگواؤ۔۔۔ وہ آہی رہا ہوگا۔

    فوزیہ: (منہ بناکر) آچکے وہ! ہم ابھی جاکر انہیں بلالاتے ہیں۔ (جاتی ہے)

    امی: (پکارتے ہوئے) بچو بابا! او بچو بابا!

    بچو بابا: (دور سے) آئے رہے ہیں۔

    (لاٹھی ٹیکتے ہوئے آتے ہیں۔۔۔)

    امی: نوید ابھی تک اٹھا نہیں؟

    بچوبابا: سوئے رہے ہیں چادر تانے۔ بڑے بھیا ان سے کہہ گئے رہیں کہ آج بوائی کا کام وہی دیکھ لیں گے۔ نوید بھیا کو سام تک سہر بھی جانا ہے نا؟

    امی: اچھا۔۔۔ اب جاکر جگادو اسے۔ خورشید صبح سے کھیتوں پر لگا ہوا ہے اور نواب صاحب ہیں کہ ابھی سو رہے ہیں۔ کہو اٹھے۔ کھانا لگ رہا ہے۔

    بچوبابا: اور بڑے بھیا۔۔۔؟

    امی: فوزیہ انہیں بلانے گئی ہے۔

    (بچو بابا لاٹھی ٹیکتے ہوئے جاتے ہیں)

    فیڈآؤٹ۔

    فیڈان:

    (ٹریکٹر کا شور۔۔۔)

    فوزیہ: (پکارتے ہوئے) بھائی جان۔۔۔ بھائی جان۔

    (ٹریکٹر کا شور)

    فوزیہ: (جھنجھلاکر) بھائی جان۔۔۔ (دانت پیس کر) بھائی جان!

    (ٹریکٹر رک جاتا ہے)

    ہمایوں: (دھیرے سے) افوہ! تمہیں غصہ کیوں آرہا ہے؟

    فوزیہ: اتنی دیر سے چلا جو رہے ہیں۔

    (خورشید دوڑتا ہوا آتا ہے۔ پاس آکر ایک سگریٹ سلگاتا ہے)

    خورشید: (ہنس کر) اوہ فوزیہ اور ہمایوں! تم لوگ یہاں کیسے؟

    فوزیہ: (منہ بناکر) یہاں کیسے؟ کچھ ہوش بھی ہے۔ ڈھائی بجنے کو ہیں۔ امی نے بلوایا ہے۔ کھانا کھالو۔ توبہ۔ پکارتے پکارتے گلا سوکھ گیا۔

    خورشید: (ہنس کر) تو اتنا چلانے کی ضرورت کیا تھی۔ تم نہ آتیں جب بھی میں آجاتا۔ ہمایوں! تم اسے سمجھاؤ! بہت جلد پارہ چڑھ جاتا ہے۔

    ہمایوں: (گڑبڑاکر) جی بھائی جان!

    خورشید: تم لوگ آج جارہے ہونا؟

    فوزیہ: ہاں ہاں ہاں! اتنی بھی خبر نہیں رہتی ہماری۔ صبح سے شام تک بس کھیت کھیت کھیت۔

    خورشید: (ہنس کر)اور نوید بھی تم لوگوں کے ساتھ ہی جائے گا۔

    ہمایوں: جی بھائی جان!

    خورشید: اور تمہارا امتحان کب سے ہے؟

    فوزیہ: توبہ ہے! ہم نہیں بتاتے۔ سب کچھ یہیں پوچھ لوگے۔۔۔

    خورشید: چلو۔۔۔ چلتے ہیں۔۔۔

    (سب ساتھ جاتے ہیں)

    فیڈآؤٹ۔

    فیڈان:

    (برتنوں کی کھنک۔۔۔ دور کہیں بچو بابا لاٹھی ٹیکتے ہوئے جارہے ہیں)

    امی: (پکارتے ہوئے) نوید۔۔۔ اونوید۔

    نوید: (دور سے) آیا امی! (آتا ہے)

    امی: بیٹھو تم لوگ! کھانا لگ گیا۔۔۔

    خورشید: ابھی ابھی سوکر اٹھے ہیں نواب صاحب!

    نوید: اب آپ نے فارم سنبھال لیے ہیں تو مجھے کیا فکر؟ (ہنس دیتا ہے)

    خورشید: دیکھو! تم وہاں پہنچ کر ناصر کو چند دنوں کے لیے بھیج دینا۔ اور فوزیہ تم! امتحان ختم ہوتے ہی چلی آنا۔ اب کے آموں سے پیڑ لدے ہوئے ہیں۔ گرمیاں یہیں گزارنا تم دونوں۔ کیوں ہمایوں؟

    ہمایوں: جی بھائی جان۔۔۔

    خورشید: اور امی! آپ بچو بابا کو نوید کے ساتھ بھیج دیجیے۔ یہ تو دن بھر کارخانے میں لگا رہے گا۔ گھر کی دیکھ بھال صرف بوا پر چھوڑنا ٹھیک نہیں۔ وہ ایک بھلکڑ ہیں۔

    امی: (دھیرے سے) بچو بابا تو خود ہی جانا چاہتے ہیں۔ کہتے تھے تمہارے ابا کی قبر مرمت کروانی ہے نا۔۔۔

    خورشید: او ہاں! دلی سے سید علی نے بنا کتبہ بھیج دیا ہوگا۔ خط آیا تھا اس کا۔ نوید! تم منشی جی سے پوچھ لینا۔ کتبہ اب تک آگیا ہوگا۔ اکاؤنٹنٹ صاحب سے کہنا کہ اس سال کا پورا حساب جلد تیار کرڈالیں۔ پھر وہ نئی مشینیں منگوانی ہیں۔

    امی: (جھنجھلاکر) افوہ! خدا کے لیے پہلے کھانا کھالو پھریہ بکواس کرنا۔ سالن رکھے رکھے ٹھنڈا ہوگیا۔۔۔ (پکارتے ہوئے) بچو بابا۔۔۔ اے بچو بابا۔

    بچوبابا: (دور سے) آئے رہے ہیں۔

    (لاٹھی ٹیکتے ہوئے آتے ہیں)

    بچوبابا: کاہے؟

    امی: دیکھو بوا سے کہو سالن کا ڈونگا پھر سے گرم کردیں۔ (بچو بابا جاتے ہیں)

    خورشید: ہاں! اور نوید۔۔۔ یہ بھی دیکھ لینا کہ جو کھاد شہر سے منگوائی تھی اس کی بوریاں منشی جی نے گودام سے اٹھوالیں کہ نہیں۔ میں نے ناصر کو دسہری کی نئی قلموں کے لیے بھی لکھ دیا تھا۔ کوئی پچاس پیڑ۔۔۔ سمجھے؟ پوچھ لینا۔۔۔

    امی: (تنبیہ کے انداز میں) خورشید۔۔۔

    خورشید: (گڑبڑاکر) جی امی۔۔۔

    امی: تم پھر کھانا ٹھنڈا کرواؤگے۔۔۔ (بچو باباآتے ہیں)

    بچوبابا: کھیت پر سے ہروار آئے رہا۔ تمہیں بلاوے کے لیے۔

    خورشید: اچھا اچھا۔۔۔ کیوں؟

    بچوبابا: ای کہہ گیا ہے کہ جائے کے ٹیوب ویل کی مسین ٹھیک کردیو۔ کچھ گڑبڑ پڑگئی ہے۔

    (خورشید اٹھتا ہے)

    خورشید: بس (منہ چلاتے ہوئے) میں کھا چکا کھانا۔

    امی: (غصے میں) توبہ ہے خورشید! اس طرح کھانا کھایاجاتا ہے۔ بیٹھو ابھی۔ مشین جائے چولہے بھاڑ میں۔

    (سب ہنستے ہیں)

    (طربیہ موسیقی کی ایک طویل لہر۔ رفتہ رفتہ معدوم ہوجاتی ہے)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے