aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اردو میں زندہ نثر کی ایک ایسی کتاب بھی ہے، جس کا جادو دو سو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود قائم ہے اور جس کی شہرت و مقبولیت میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ اس کتاب نے اردو نثر کو ایک نئی سمت اور روشنی دی ہے۔ وہ کتاب بنیادی طور پر ترجمہ ہے مگر اس کی شہرت اصل کتاب سے کہیں زیادہ ہے۔ ترجمہ اتنا خوبصورت اور سلیس ہے کہ طبع زاد کا گمان گزرتا ہے اور اس کی خوبی یہ ہے کہ اس ترجمہ کا نہ صرف انگریزی میں ترجمہ ہوا بلکہ اردو کے مشہور محقق گارساں دتاسی نے فرانسیسی میں اس کا ترجمہ کیا۔ گفتگو کی زبان میں لکھی گئی یہ کتاب ’باغ و بہار‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے مصنف میرامّن فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے ہندوستانی شعبے میں تیسرے درجے کے ملازم تھے اور ان کی تنخواہ بھی دوسرے مصنفین اور مترجمین کے مقابلے میں معمولی تھی مگر محنت اور لگن نے میرامّن کے باغ و بہار کو آج بھی سرسبز رکھا ہے۔
میرامّن دہلی میں 1748 کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان شہنشاہ ہمایوں کے زمانے سے عالمگیر ثانی کے عہد تک منصب داروں میں شامل رہا ہے۔ ان کے پاس اچھی خاصی جاگیر تھی مگر سورج مل جاٹ نے ان کی جاگیر چھین لی، ادھر احمد شاہ درّانی نے اس طرح تباہی مچائی کہ سب کچھ تاراج ہو گیا۔ میر امّن پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ کسی طرح عظیم آباد (پٹنہ) پہنچے۔ وہاں کچھ برس قیام کیا مگر وہاں بھی حالات نے ساتھ نہیں دیا۔ مجبوراً کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔ وہاں بھی کچھ دن بیکاری میں گزارے۔ اس کے بعد نواب دلاور جنگ نے اپنے چھوٹے بھائی میر کاظم خاں کی اتالیقی پر مامور کر دیا۔ یہاں بھی دو سال کے بعد طبیعت اچاٹ ہو گئی۔ یہاں کے بعد میر بہادر علی حسینی کے توسط سے جان گل کرسٹ سے شناسائی ہوئی اور میرامن فورٹ ولیم کالج میں ملازم ہو گئے۔ جہاں 4 جون 1806 تک تصنیف و تالیف کا کام کرتے رہے۔
فورٹ ولیم کالج سے وابستگی کے بعد میرامّن کو پہلا کام قصہ ’چہار درویش‘ کے اردو ترجمہ کا ملا۔ انہوں نے جان گل کرسٹ کی ہدایت کے مطابق ٹھیٹھ ہندوستانی گفتگو میں اس کتاب کا ترجمہ کیا اور اتنا عمدہ ترجمہ کیا کہ کالج کی طرف سے اس پر 500 روپیہ کا انعام دیا گیا۔ انہوں نے عطا حسین خان تحسین کے ’نو طرز مرصع‘ کو سامنے ضرور رکھا مگر اپنے طور پر اتنی تبدیلیاں کر دیں کہ اصل کتاب گم ہو گئی۔ ’باغ و بہار‘ میں چار درویشوں کی سرگزشت ہے اور آزاد بخت اس کے مرکزی کردار ہیں۔
میرامّن نے ترجمہ میں عربی، فارسی سے گریز کر کے ہندوی کا استعمال کیا ہے بلکہ دلّی کی زبان استعمال کی ہے اور مروجہ قواعد سے بھی انحراف کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین نے باغ و بہار میں قواعد کی غلطیاں بھی نکالی ہیں اور یہ لکھا ہے کہ اس میں واحد جمع اور تذکیر و تانیث کا بھی خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود باغ و بہار کی نثر بے مثال اور بے نظیر ہے۔
’باغ وبہار‘ کے علاوہ ’گنج خوبی‘ بھی میرامّن کی ترجمہ کی ہوئی کتاب ہے۔ ملا حسین واعظ کاشفی کی ’اخلاق محسنی‘ کا یہ ترجمہ ہے مگر اسے ’باغ و بہار‘ جیسی مقبولیت نصیب نہیں ہوئی۔
میرامّن کے سوانحی حالات تذکروں میں نہیں ملتے۔ اس لیے ان کی تاریخ پیدایش کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ دیگر احوال بھی نہیں ملتے۔ کہا جاتا ہے کہ 1806 میں میر امّن کا انتقال ہو ا۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اردو کی ترقی کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیا تھا۔ ان کی زبان کا کوئی لمحہ ایسا نہ تھا جو اردو کی فکر سے خالی ہو۔ یہ ان کی خدمات کا اعتراف ہی ہے کہ وہ ہر جگہ بابائے اردو کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
عبدالحق 1870ء میں ہاپوڑ ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد مزید تعلیم کے لیے محمڈن کالج علی گڑھ بھیجے گئے۔ یہاں ا کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ سر سید تک رسائی تھی۔ اس ذات گرامی سے براہ راست فیض اٹھانے کا موقع ملا۔ یہیں مولانا حالیؔ اور محسن الملک سے بھی نیاز حاصل ہوا۔ سرسید کے صاحب زادے جسٹس محمود سے بھی ملاقات تھی۔ سرسید نے تصنیف و تالیف کا کچھ کام عبدالحق کے سپرد بھی کیا اس طرح لکھنے پڑھنے کی پہلی تربیت اسی مرد بزرگ کے ہاتھوں ہوئی۔
تعلیم سے فارغ ہو کر عبدالحق تلاش معاش میں حیدرآباد چلے گئے اور ایک اسکول میں مدرس کی ملازمت قبول کر لی۔ آخر ترقی پاکر مدارس کے انسپکٹر مقرر ہوئے۔ اسی زمانے میں انجمن ترقی اردو کے سکریٹری منتخب ہوئے۔ 1917ء میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ ترجمہ سے مختصر عرصے منسلک رہے۔ آخر اورنگ آباد کالج کے پرنسپل ہوگئے۔ اب انہیں انجمن ترقی اردو کو مستحکم کرنے کا موقع ملا۔ اسی کے ساتھ ہی تصنیف و تالیف کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر ہوگئے۔ ریٹائر ہونے کے بعد دہلی آگئے اور اردو نیز انجمن ترقی اردو کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ ملک تقسیم ہوگیا تو کراچی چلے گئے۔ اور وہاں بھی اردو کے فروغ کی کوشش میں لگے رہے۔ آخر وہیں 1961ء میں وفات پائی۔ بابائے اردو کی خدمت کے اعتراف میں الہ آباد یونیورسٹی نے 1937ء میں انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کا یہ کارنامہ قابل قدر ہے کہ قدیم اردو ادب کا جو سرمایہ مخطوطات کی شکل میں صندوقچوں اور الماریوں میں بند تھا اور جس کے ضائع ہوجانے کا اندیشہ تھا مولوی صاحب نے اسے ترتیب دے کر شائع کیا اور برباد ہونے سے بچا لیا۔ ان کتابوں پر مولوی صاحب نے مقدمے لکھے، ان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ مصنفین کے حالات زندگی دریافت کر کے ہم تک پہنچائے، ان تصانیف کے عہد کی خصوصیات واضح کیں اور اردو تنقید کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردی۔
چھان بین کے بعد بہت سی غلط فہمیوں کو رد کیا مثلاً اس خیال کی تردید کی کہ میرامن کی باغ و بہار فارسی کے قصہ چہار دردیش کا ترجمہ ہے۔ انہوں نے دلیلوں سے ثابت کردیا کہ اس کا ماخذ لوطرز مرصع ہے۔ مولوی صاحب کی زبان سادہ و سلیس ہوتی ہے جیسی تحقیق کے لیے ضروری ہے۔
مقدمات عبدالحق، خطبات عبدالحق، تنقیدات عبدالحق ان سے یادگار ہیں۔ فرہنگ، لغت اور اصطلاحات پر بھی انہوں نے کام کیا۔ ’’چند ہم عصر‘‘ ان کی مقبول کتاب ہے جس میں مختلف شخصیتوں پر مضمون شامل ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets