aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
سہیل عظیم آبادی کے بارے میں کچھ ناقدین کی رائے یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ادبی سفر میں جو راہ اپنائی تھی وہ دراصل پریم چند کی بنائی ہوئی تھی۔ سادہ ، آسان اور بے باک لہجے میں انہوں نے اپنی نگارشات جس طرح پیش کیں ان کے بارے یہ خیال مسلم ہو جاتا ہے کہ پریم چند کا اسلوب تو انہوں نے اپنایا لیکن موضوعات کا تنوع انہیں الگ کردیتا ہے۔ مثلاً زیر نظر ناول ’بے جڑ کے پودے‘ میں انہوں نے جس موضوع کو ہاتھ لگایا ہے وہ ایک الگ دنیا کا قصہ بیان کرتا ہے۔ یعنی ہماری وہ معاشرت جس میں مغربی تہذیب بھی شامل ہے جہاں والدین میں جنسی بے راہ روی عام ہے۔ اسی بے راہ روی کا نتیجہ وہ بچے ہوتے ہیں جنہیں سماج حرامی کہہ کر مخاطب کرتا ہے، جبکہ اس میں ان بچوں کا کوئی دوش نہیں ہوتا۔ اس ناولٹ میں مزید وضاحت کے لیے بطور مقدمہ عبد المغنی کا وہ مضمون بھی شامل ہے جو انہوں نے اس ناولٹ پر لکھا تھا، یہ مضمون اس ناولٹ کے حوالے سے بہت اہم ہے۔
سہیل عظیم آبادی اردو کے ایک نامور افسانہ نگار ہیں۔ پریم چند کی روایت بہار کی سرزمین پر انہی کے دم سے آگے بڑھی۔ مولوی عبدالحق کی سرپرستی میں انہوں نے بہار میں اردو کے فروغ کی تحریک چلائی۔ اپنے مشہور اخبار’’ساتھی‘‘ سے انہیں اس کام میں بہت مدد ملی۔ اس کے علاوہ ماہنامہ’’تہذیب‘‘ نے بھی اس مقصد کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
سہیل عظیم آبادی نے بہت سے افسانے لکھے اور ان افسانوں میں حقیقی زندگی کے مرقعے پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ان کے افسانوں کا دائرہ وسیع ہے۔ پریم چند کی پیروی میں وہ دیہات کی زندگی کو اپنا موضوع بناتے ہیں لیکن شہری زندگی کو بھی فراموش نہیں کرتے۔
سہیل عظیم آبادی پر ترقی پسند تحریک کا اثر بھی صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ انہوں نے غریبوں اور مظلوموں کی حمایت میں آواز اٹھائی اور اپنے افسانوں میں ان کے مسائل کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا۔
وہ ایک کامیاب فنکار ہیں ان کے فن میں گہرائی ہے کیوں کہ وہ مسائل پر سنجیدگی سے غور کرتے ہیں۔ دلکشی ہے کہ کیوں کہ پلاٹ اور کردارنگاری پر خون جگر صرف کرتے ہیں اور آخری بات یہ کہ زبان پر انہیں پوری دسترس حاصل ہے اس لیے ان کا انداز پیش کش بہت مؤثر ہے۔ وقار عظیم لکھتے ہیں ’’سہیل کے افسانوں میں نہ زندگی پر زیادہ زور پڑتا ہے اور نہ فن پر ان کے یہاں طنز ہے لیکن اس میں تلخی نہیں، ادبیت ہے لیکن اس کا شاعرانہ غلو نہیں، زندگی کی سچائی ہے لیکن اس میں زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں۔ ان کے افسانے زندگی کے اضطراب لیکن حق کے سکون کے پیامی ہیں‘‘۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets