aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
میر تقی میر اور محمد رفیع سودا اپنے زمانہ میں شاعری کی سُپر پاور تھے ۔ ان لوگوں نے ایہام گوئی کی سلطنت کے زوال کے بعد زبان و بیان کے نئے علاقوں کو فتح کیا تھا۔ ان قد آور شخصیتوں کا کوئی مد مقابل نہیں تھا لیکن کچھ دوسرے شعراء اپنے شعری اظہار کے لئے نئی وادیوں کی تلاش میں تھے ۔ان میں انعام اللہ خاں یقینؔ اور اشرف علی فغاںؔ پیش پیش تھے۔دونوں کا میدان عمل مضامین تازہ کی تلاش تھا۔ عبدالسلام ندوی نے تو انھیں میر و سودا کا ہم پلہ قرار دے دیا۔ فغاں فارسی اور اردو دونوں زبانوں میں اشعار کہتے تھے ۔ اردو میں ان کا دیوان چھپ چکا ہے ۔ زیر نظر دیوان میں انکے فارسی کلام کا بھی نمونہ آخر میں دیا گیا ہے۔ اس نمونے سے قبل دو ضمیمے ہیں اور ان دونوں ضمیموں میں اردو دیوان کا نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب تین ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول میں فغاں کے حالات زندگی، باب دوم میں فغاں سے متعلق ناقدین اور تذکرہ نگاروں کی تحریریں اور باب سوم میں فغاں کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ، پر بات ہوئی ہے۔ عرض مرتب کے تحت مصنف کے گوشہ زندگی پر شاندار کلام کیا گیا ہے۔ اس دیوان کے قلمی نسخے خدا بخش لائبریری میں موجود ہیں اور اس کا سیریل نمبر اس کتاب میں عرض مرتب کے فوراً بعد لسٹ بنا کر دے دیا گیا ہے تاکہ قلمی نسخے سے رجوع کرنے والوں کے لئے آسانی ہوجائے۔
Ashraf Ali Khan was the foster brother of King Ahmad Shah . He practiced the craft of poetry under the guidance of Ali Quli Nadeem. Fughan was expert not only in poetry but in witticism and humour as well .That's why Ahmad Shah honored him with the title ‘Zareef-ul-Mulk’. After Durrani’s attack on Delhi, he went to Murshidabad to his uncle, Iraj Khan and from there to Awadh. After sometime he left Awadh and finally settled in Azimabad where he was appointed at the court of Raja Shatab Rai. Fughan’s divan is considered one of the finest examples of classical poetry.
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets