aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب انیس اشفاق کی جدید تنقید کے موضوع پر اہم کتاب ہے جس میں انہوں نے غالبؔ کے علامتی نظام پر گفتگو کی ہے۔ اسے اترپردیش اردو اکادمی نے چھاپا ہے ۔ انتساب شہریار اور افتخار عارف کے نام ہے۔ مقدمہ مصنف نے خود لکھا ہے جبکہ پرانی علامتوں کے نئے مفاہیم کے عنوان سے انہوں نے فیض احمد فیض‘ ناصر کاظمی‘ احمد مشتاق‘ منیر نیازی‘ ظفر اقبال‘ شہریار‘ بانی اور زیب غوری کی علامتی صورت حال سے بحث کی ہے۔ کتاب کے بے حد مفید ہونے میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مذکورہ شعراء کے کلام کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس سے مصنف کی ژرف نگاہی اور عرق ریزی صاف عیاں ہے۔
چوبیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف انیس اشفاق شاعر بھی ہیں، نقاد اور افسانہ نگار بھی۔ ان کے کئی ناول جیسے'ہیچ' (2024) 'دکھیارے' (2014)، 'خواب سراب' (2017) اور 'پری ناز اور پرندے' (2018) شائع ہو چکے ہیں جنہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ انھیں 2022 میں اپنے ناول 'خواب سراب' کے لئے ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا۔
انیس اشفاق کا بنیادی میدان تنقید ہے۔ نئے اور پرانے ادب کی تعبیر و تحلیل سے متعلق اب تک ان کے پانچ تنقیدی مجموعے: 'اردو غزل میں علامت نگاری' (1995)، 'ادب کی باتیں' (1996)، 'بحث و تنقید' (2009)، 'غزل کا نیا علامتی نظام' (2011) اور'غالب: دنیائے معانی کا مطالعہ' (2022) شائع ہوچکے ہیں اور تین تنقیدی کتابیں 'دریا کے رنگ: اردو مرثیے کے معنوی جہات' ، 'ادب کی باتیں' (دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن) اور 'سیدھی باتیں سادہ مطالب' اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ انیس اشفاق کے تنقیدی مضامین یوں تو حصولِ تعلیم کے زمانے ہی سے ادبی جریدوں میں چھپنے لگے تھے لیکن کتاب 'اردو غزل میں علامت نگاری' کے شائع ہونے کے بعد ادبی دنیا میں ایک ناقد کی حیثیت سے ان کی پہچان مستحکم ہوئی۔
انیس اشفاق نے ترجمے بھی کیے ہیں ، خاکے اور مونوگراف بھی لکھے ہیں، رپورتاژ، سفرنامہ اور سوانح بھی۔ فی الوقت وہ اپنے بچپن میں دیکھے ہوئے لکھنؤ کے احوال و آثار پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔