aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر کتاب "اقبال" علامہ اقبال پر لکھی ہوئی اردو میں سب سے پہلی کتاب ہے جس میں ان کی شخصیت اور فن کو پیش کیا گیا ہے۔ یہ کتاب مولوی احمد دین کی تصنیف ہے ۔ مولوی احمد دین علامہ اقبال کے احباب میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ اقبال کی طرح احمد دین بھی کشمیری تھے اور ان کا پیشہ بھی وکالت تھا۔ انجمن حمایت اسلام میں بھی دونوں کی مشترکہ دلچسپی تھی۔ بیس پچیس برسوں کی بے تکلف دوستی کی بنا پر انھوں نے اقبال کی شاعرانہ عظمت کے اعتراف میں یہ کتاب لکھی۔ اس سے قبل اقبال کی شخصیت اور شاعری پر اردو میں کوئی مستقل کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ چنانچہ احمد دین نے خاموشی سے کتاب لکھی اور اسےعلامہ اقبال کے علم یا مشورے کے بغیر چھاپ دیا۔ مگر جب معلوم ہوا کہ علامہ اقبال نے اس بات کو نا پسند کیا ہے تو مولوی احمد دین نے اس کتاب کی ساری کاپیاں گھر کے صحن میں رکھ کر نذر آتش کردیں۔ مگر 1942 میں"بانگ درا" منظر عام پر آئی تو دوبارہ اس کتاب کو سامنے لایا گیا۔ زیر نظر نسخہ کو مشفق خواجہ نے مرتب کیا ہے۔ اس ایڈیشن میں طبعِ دوم کو بنیاد بنا کر حواشی میں ان تمام عبارات کی نشان دہی کی ، جو طبعِ اوّل میں موجود تھیں اور جنھیں طبعِ دوم میں تبدیل یا حذف کر دیا گیا تھا۔ طبعِ دوم کے متن کے بعد، اختلافِ نسخ اور تعلیقات و حواشی کا حصہ پونے دو سو صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ چونکہ مشفق خواجہ نے طبع اول اور دوم دونوں کے متن کو سامنے رکھتے ہوئے یہ تیسرا نسخہ پیش کیا ہے جس کی وجہ سے اقبالیات میں اس نایاب متن کی دریافت کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ ان دونوں متون کے ذریعے، اقبال کے متروک کلام کا بڑا حصہ سامنے آیا ہے اس لیے باقیات شعر اقبال کے سلسلے میں مشفق خواجہ کی اس تحقیقی کاوش کو ایک اہم ماخذ کی حیثیت حاصل ہے۔