aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اقبال کی شاعری کے اگر آپ دلدادہ ہیں تو ان کی شاعری کو تجرباتی ،فلسفیانہ ، تاریخی ،اسلامی اور تصوراتی پتہ نہیں آپ کیا کیا کہیں گے ،کیونکہ ان کی شاعری میں اتنے تنوع او ر موضوعات ہیں جن کا احاطہ اُ ن کے عہد سے اب تک ہورہا ہے ۔ان کے ناقدین کی تعداد بھی بہت ہی زیادہ ہے ۔ اقبال کو سمجھنے کی کو شش میں کئی ایسی نایا ب کتابیں لکھی گئی ہیں جو دیگر شعراکے نصیب میں نہیں آئی ۔ انہیں میں سے ایک یہ نادر کتاب ہے جسے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے پروفیسر اسلوب احمد انصاری نے تصنیف کیا ہے جنہوں نے صرف تیرہ نظموں کاانتخاب کیا اور ان پر اپنی گفتگو کو اقبال کی فکر کی روشنی میں پر وان چڑھایا ۔اس کتاب میں اقبال کے انگریزی تحریروں سے تعاون بھی کافی ہے اور ان کے وہ فلسفے کا جن کا ذکر اپنی خطبوں میں کیا ہے ان کو بھی ان تیرہ نظموں کے تناظر میں تجزیاتی طور پر پیش کیا گیاہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے آپ علم و فکر کی گہر ائی میں اتر یں گے اور علامہ کی شاعری پر لکھی گئیں دیگر کتابوں سے زبان و بیان اور موضوع کے اعتبار سے بھی مختلف پائیں گے ۔
اسلوب احمد انصاری 1925ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1946ء میں انگریزی سے ایم اے کیا اور فرسٹ کلاس آئے۔ 1947ء میں اسی یونیورسٹی میں انگریزی کے لکچرر ہوگئے۔ ابھی علم کی پیاس بجھی نہیں تھی لہٰذا لندن گئے اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ ہوئے۔ 1959ء میں شعبہ انگریزی کے ریڈر ہوگئے اور 1967ء میں پروفیسر ہوگئے۔ 1965ء سے 1984ء تک وہاں کے صدر شعبہ رہے۔ ان کی اردو کتابوں کی تفصیل یہ ہے:
’’ادب اور تنقید‘‘، ’’نقش غالب‘‘، ’’اقبال کی تیرہ نظمیں‘‘، ’’نقش اقبال‘‘، ’’اقبال کی منتخب نظمیں اور غزلیں‘‘ ’’اقبال: حرف و مومن‘‘، ’’نقش ہائے رنگ رنگ‘‘ (غالب) ’’اطراف رشید احمد صدیقی‘‘، ’’اردو کے پندرہ ناول‘‘، ’’آئینہ خانے میں‘‘، ’’نذر منظور‘‘ (ترتیب) ’’غزل تنقید‘‘ (دوجلدوں میں) (ترتیب)، ’’غالب: جدید تنقیدی تناظرات‘‘، ’’اقبال: جدید تنقیدی تناظرات‘‘، ’’تنقیدی تبصرہ‘‘، ’’حرف چند‘‘۔
ان کتابوں کی بنیاد پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اسلوب احمد انصاری کا تنقیدی شعور مختلف صنفوں کے تجزیے کی طرف مائل رہا ہے۔ ایک طرف تو انہوں نے غالب اور اقبال کے مطالعات سے گہری دلچسپی لی تو دوسری طرف منتخب ناولوں کے معیار ومنہاج سے بحث کی۔ متفرق طرز کے مضامین بھی لکھے۔ لیکن مجموعی طور پر اس کا احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے اقبال سے غایت دلچسپی رکھی ہے اور ان کی شاعری کے بعض گوشوں کو منور کرنے کی کوشش کی۔ مجھے احساس ہوتا ہے کہ اسلوب احمد انصاری کے اردگرد کسی ازم کا حصار نہیں۔ نتیجہ میں وہ آزادانہ طور پر اپنے ذوق کی روشنی میں ادبی تجزیے کے مشکل مرحلے سے گزرتے رہتے ہیں۔ انہیں کسی رائج اسکول سے وابستگی عزیز نہیں اس لئے ان کی تنقید میں مختلف رنگ پائے جاتے ہیں۔ کہیں کہیں نیوکریٹی سزم کی جھلکیاں ملتی ہیں تو کہیں ان کے متضاد طریق کار کارکی بھی۔ گویا ایک طرح سے ان کی تنقید ان کے ذہن کی اوٹونوی کا پتہ دیتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بھی فن پارہ پڑھنے والوں پر تفہیم کا باب مطلقاً کھول دے۔ اس عمل میں وہ ریاضیاتی تجزیے سے گزرتے ہوتے ہیں اور پہلے کسی شعری فن پارے کو معنوی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اپنے طور پر اس کے معیار کی باتیں کرتے ہیں۔ گویا ان کی غایت بس اتنی ہے کہ تفہیم کا عمل سرانجام پاجائے۔ عام طورسے ان کا رویہ ہمدردانہ ہوتا ہے۔ شعری یا نثری تجزیے میں عیوب سے زیادہ محاسن کی تلاش کرتے ہیں۔ اس عمل میں ان کا ذاتی ذوق اور مطالعہ بھی رہنما ہوتا ہے لیکن شاعر یا مصنف کے حق میں یہ بات ہوتی ہے کہ وہ زیادہ تر خوبیوں کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کی تحریر میں کہیں پیچیدگی نہیں ہوتی۔ وہ باتوں کو کھل کر بیان کرنا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں بعض امرطولانی بن جاتے ہیں اور کہیں کہیں تکرار کی بھی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک ایسا شخص جو انگریزی ادبیات سے ساری زندگی وابستہ رہا وہ کوئی واضح ادبی نقطہ نظر کیوں نہ پیدا کرسکا۔ یہ بات بعضوں کو الجھن میں ڈال سکتی ہے۔
اسلوب احمد انصاری نے انگریزی میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ انگریزی میں کم ازکم ان کی آٹھ دس کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں دو طبع زاد اور چھ ترتیب دی ہوئی ہیں۔ طبع زاد کتابوں میں ایک ولیم بلیک پر ہے۔ مرتبہ کتابوں میں ان کے پیش نظر ملٹن، جان ڈن، سروالٹر ریلے اور اقبال اور سرسید ہیں۔ انہوں نے مختلف انگریزی رسالوں میں بھی چند مضامین لکھے ہیں۔ موصوف نے جو مضامین شیکسپیئر سے متعلق لکھے ہیں وہ ایک اطلاع کے مطابق مغرب میں پسند کئے گئے ہیں، جن بعض حوالے بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کو صحافت سے بھی دلچسپی رہی ہے۔ وہ اردو میں 1979ء سے 2001 ء تک ’’نقدرونظر‘‘ جیسا اہم جریدہ نکالتے رہے۔ انگریزی کے علیگڑھ جنرل آف انگلش اسٹڈیز اور علی گڑھ کرٹیٹیکل مسیلینی کے بھی بنیاد گزار اور ایڈیٹر رہے ہیں۔
اسلوب احمد انصاری کو کئی ادبی انعامات مل چکے ہیں، جن میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اور غالب ایوارڈ بھی ہیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets