aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
اس مجموعے میں اسلام کے الگ الگ عنوانات کو اشعار کا جامہ پہنا کر پیش کیا گیا ہے۔ مجموعے کا آغاز مساوات اسلام کے بیان سے کیا گیا ہے اس کی مثال جنگ بدر سے دی گئی ہے جس میں دعوت مبارزت کے دوران مکہ والوں نے ایک انصار صحابی سے مقابلہ کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ انصار کی گردن ہماری تلوار کی عظمت کی اہل نہیں۔ لیکن اسلام میں رنگ و نسل کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور یہی اسلام کی مساوات ہے۔ اگلی نظم میں حضرت بلال کا واقعہ ہے جن کی وفات پر حضرت عمر نے کہا تھا " اٹھ گیا آج زمانہ سے ہمارا آقا" جبکہ حضرت بلال کئی سال غلامی میں بسر کرچکے تھے اور حضرت عمر خلیفہ اسلام تھے۔ یہ تھا اسلام کا مساوات ۔ ہندوستان میں اکبر اور جہانگیرکی شاندار حکومت کے بعد اسلام کی تنزلی کا سبب بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں باہمی اخوت اور صدق و دیانت کی پابندی میں زوال نے مسلمانوں کودنیا بھرمیں خوارکیا۔ مذہب و سیاست سے لے کر ، ہجرت نبوی تک کو بیان کیا گیا ہے۔ زیر نظر کتابچے میں ندوہ العلماء کی توصیف میں طویل نظم ہے۔ مجموعے کے تقریباً آخری ایک ثلث میں مولانا شبلی نعمانی کے مختلف گوشہ حیات کا ذکر ہے جسے ہر طالب علم کو پڑھنا چاہئے۔ آخر میں دہلی کی جامع مسجد کے سامنے اونگ زیب کے دور میں شیخ سرمد کی شہادت کا ذکر ہے۔ غرضیکہ اس چھوٹے سے مجموعے میں سمندر کو سمونے کی کوشش کی گئی ہے۔