aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
بیدم شاہ وارثی کا شمار عظیم نعت گو شعرا میں ہوتا ہے ،وہ حقائق و معارف کے راز سے آشنا تھے ،انھیں معارف کو اشعار کی شکل میں پیش کیا ہے،ان کے کلام میں ان کی درویشانہ شخصیت کا اثر نظر آتا ہے،ان کا کلام حقائق و معارف کا خزانہ اور روحانیت کا آئنہ ہے،"مصحف بیدم" ان کےکلام کی معروف و مشہور کتاب ہے،جو"نور العین"کےنام سےلوگوں کے درمیان مشہورہے، اس مجموعہ میں بیدم کے کلام کی ندرت، درد، سوز، حقائق و معارف، تصوف، واقعات اورواردات کی عمدہ تعبیر و تشریح دیکھنے کو ملے گی، ان کے مداحوں اور عقیدت مندوں کے لئے یہ کتاب ایک نایاب تحفہ ہے۔
بیدم شاہ وارثی کا اصل نام غلام حسین تھا ۔ پیر و مرشد سید وارث علی شاہ نے ان کا نام بیدم شاہ وارثی رکھا تھا۔ ۱۸۷۶ء میں پیدا ہوئے۔والد کا نام سید انور تھا۔وہ اٹاوہ کے رہنے والے تھے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بھی اٹاوہ میں ہی ہوئی ۔دوسروں کی غزلیں سن کر گنگنایا کرتے تھے ۔ شاعر بننے کی تمنا میں آگرہ گئے اورثار اکبرآبادی کے شاگرد ہوئے ۔وہ اپنے صوفیانہ ،عارفانہ کلام اور مخصوص مزاج کی وجہ سے سراج الشعراکہے جاتے تھے ۔نعت گو کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں۔’’مصحف بیدم‘‘ کے نام سے ان کا مجموعۂ کلام چھپ چکاہے۔1936میں حسین گنج لکھنؤ میں ان کا انتقال ہوا۔انہوں نے اپنے پیر و مرشد کی منظوم سوانح پھولوں کی چادر کے عنوان سے لکھی ۔ان کی شاعری میں صوفیانہ اور عارفانہ کلام کے علاوہ صنفی طور پر بھجن ،ٹھمری،دادرااور پوربی بھاشا کے کلام ملتے ہیں ۔آج بھی ان کا کلام لوگوں کی زبان پر ہے۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free