aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
انیس اشفاق کا ناول "پری ناز اور پرندے" اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں مایہ ناز افسانہ نگار نیر مسعود کے مشہور افسانے "طاؤس چمن کی مینا" کی کہانی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے اردو میں ایک تجربہ کیا گیا تھا جب سریندر پرکاش نے منشی پریم چند کے ناول "گئودان" کے ایک کردار ہوری کو لے کر اس پر افسانہ لکھا تھا، لیکن افسانے پر ناول لکھنے کی یہ پہلی مثال ہے۔ "پری ناز اور پرندے" میں انیس اشفاق ’طاؤس چمن کی مینا‘ کی فلک بوس بلندیوں کو تو نہیں چھو پائے، تاہم اس افسانے کے شائقین کے لیے یہ ناول خاصے کی چیز ہے۔ کیونکہ ناول میں ہمیں اردو کی روایتی قصّہ گوئی اور داستان گوئی کا ٹچ بھی ملتا ہے اور انداز بیان انیس اشفاق کا ایسا ہے کہ قاری کو اپنے ساتھ باندھ کر رکھتا ہے۔ ناول کے آخری حصے میں نیّر مسعود کو کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس لئے اکثر مقامات پر لکھنوی تہذیب کے نمائندہ کے حیثیت سے نیئر مسعود سے ملاقات ہوتی رہتی ہے، ناول کی زبان اور بیانیہ بہت خوبصورت ہے۔
چوبیس سے زیادہ کتابوں کے مصنف انیس اشفاق شاعر بھی ہیں، نقاد اور افسانہ نگار بھی۔ ان کے کئی ناول جیسے'ہیچ' (2024) 'دکھیارے' (2014)، 'خواب سراب' (2017) اور 'پری ناز اور پرندے' (2018) شائع ہو چکے ہیں جنہیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے ۔ انھیں 2022 میں اپنے ناول 'خواب سراب' کے لئے ساہتیہ اکادمی انعام سے نوازا گیا۔
انیس اشفاق کا بنیادی میدان تنقید ہے۔ نئے اور پرانے ادب کی تعبیر و تحلیل سے متعلق اب تک ان کے پانچ تنقیدی مجموعے: 'اردو غزل میں علامت نگاری' (1995)، 'ادب کی باتیں' (1996)، 'بحث و تنقید' (2009)، 'غزل کا نیا علامتی نظام' (2011) اور'غالب: دنیائے معانی کا مطالعہ' (2022) شائع ہوچکے ہیں اور تین تنقیدی کتابیں 'دریا کے رنگ: اردو مرثیے کے معنوی جہات' ، 'ادب کی باتیں' (دوسرا اضافہ شدہ ایڈیشن) اور 'سیدھی باتیں سادہ مطالب' اشاعت کے لیے تیار ہیں۔ انیس اشفاق کے تنقیدی مضامین یوں تو حصولِ تعلیم کے زمانے ہی سے ادبی جریدوں میں چھپنے لگے تھے لیکن کتاب 'اردو غزل میں علامت نگاری' کے شائع ہونے کے بعد ادبی دنیا میں ایک ناقد کی حیثیت سے ان کی پہچان مستحکم ہوئی۔
انیس اشفاق نے ترجمے بھی کیے ہیں ، خاکے اور مونوگراف بھی لکھے ہیں، رپورتاژ، سفرنامہ اور سوانح بھی۔ فی الوقت وہ اپنے بچپن میں دیکھے ہوئے لکھنؤ کے احوال و آثار پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔