aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قرة العین حیدر عہدجدید کی وہ فکشن نگار تھیں جن پر اردو ادب ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ قرة العین حیدر اور ان جیسی تخلیقی صفات و کمالات رکھنے والی شخصیت کسی بھی زبان اور کسی بھی عہد میں صدیوں میں جنم لیتی ہے۔قرة العین حیدرنے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تاریخ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ادب پر پھیل گئیں،روشنی کی رفتار،سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات اور فوٹو گرافر وغیرہ ان کےایسے افسانے ہیں جو ان کی تاریخ و ادب سے دلچسپی کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔انھو ں نے مشرقی پاکستان (بنگال)کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصا ل کے خلاف "چائے کے باغ" جیسی درد ناک کہانی قاریئن کے سامنے پیش کی اوراسی دور میں انھوں نے اگلے ”جنم موہے بٹیا نہ کیجو”جیسی عہد وآفرین کہانی لکھ کر عورت ذات کی حالت و کیفیت، زبوں حالی اور معاشرے کے ایک المیہ کو اس انداز میں تحریر کیا ہے کہ یہ تحریر ادب عالیہ کا لافانی کارنامہ بن گئی ۔زیر تبصرہ کتاب قرۃ العین حیدر کے چند معروف افسانوں کا عمدہ انتخاب ہے، اس کتاب میں ،قلندر، کارمن، فوٹو گرافر ، جگنو کی دنیا، ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی، کہرے کے پیچھے، ،حسب نسب، ڈالن والا، لکڑ بگے کی ہنسی، اور اگلے جنم میں موہے بٹیا نہ کیجو شامل ہیں ۔
Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25
Register for free