aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
قرة العین حیدر عہدجدید کی وہ فکشن نگار تھیں جن پر اردو ادب ہمیشہ ناز کرتا رہے گا۔ قرة العین حیدر اور ان جیسی تخلیقی صفات و کمالات رکھنے والی شخصیت کسی بھی زبان اور کسی بھی عہد میں صدیوں میں جنم لیتی ہے۔قرة العین حیدرنے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز تاریخ کی نبض پر ہاتھ رکھ کر شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عالمی ادب پر پھیل گئیں،روشنی کی رفتار،سینٹ فلورا آف جارجیا کے اعترافات اور فوٹو گرافر وغیرہ ان کےایسے افسانے ہیں جو ان کی تاریخ و ادب سے دلچسپی کی گواہی دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔انھو ں نے مشرقی پاکستان (بنگال)کے امیر طبقے کے ہاتھوں غریب محنت کشوں کے استحصا ل کے خلاف "چائے کے باغ" جیسی درد ناک کہانی قاریئن کے سامنے پیش کی اوراسی دور میں انھوں نے اگلے ”جنم موہے بٹیا نہ کیجو”جیسی عہد وآفرین کہانی لکھ کر عورت ذات کی حالت و کیفیت، زبوں حالی اور معاشرے کے ایک المیہ کو اس انداز میں تحریر کیا ہے کہ یہ تحریر ادب عالیہ کا لافانی کارنامہ بن گئی ۔زیر تبصرہ کتاب قرۃ العین حیدر کے چند معروف افسانوں کا عمدہ انتخاب ہے، اس کتاب میں ،قلندر، کارمن، فوٹو گرافر ، جگنو کی دنیا، ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی، کہرے کے پیچھے، ،حسب نسب، ڈالن والا، لکڑ بگے کی ہنسی، اور اگلے جنم میں موہے بٹیا نہ کیجو شامل ہیں ۔
قرۃ العين حيدر 20 جنوری، 1926ء میں اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد سجاد حیدر یلدرم اردو کے پہلے افسانہ نگار شمار کیے جاتے ہیں۔ تقسیم ہند کے بعد قرۃ العین حیدر کا خاندان پاکستان چلا گیا۔ 1959ء میں ان کا ناول آگ کا دریا منظر عام پر آیا جس پر پاکستان میں بہت ہنگامہ ہوا۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے بھارت واپس جانے کا فیصلہ کیا جہاں وہ بطور صحافی کام کرتی رہیں اور افسانے اور ناول بھی لکھتی رہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ادبی تراجم بھی کیے۔ ان کی کتابوں کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ انہوں نے 1964ء تا 1968ء ماہنامہ امپرنٹ کی ادارت کی اور السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا میں اداریہ لکھتی رہیں۔ ان کی کتابیں انگریزی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ ان کے سبھی ناولوں اور کہانیوں میں تقسیم ہند کا درد صاف نظر آتا ہے۔ ان کے دو ناولوں آگ کا دریا اور آخر شب کے ہم سفر کو اردو ادب کا شاہکار مانا جاتا ہے۔
آخرِ شب کے ہم سفر کے لیے 1989ء میں انہیں بھارت کے سب سے باوقار ادبی اعزاز گیان پیٹھ انعام سے بھی نوازا گیا جبکہ بھارتی حکومت نے انہیں 1985ء میں پدم شری اور 2005ء میں پدم بھوشن جیسے اعزازات بھی دیے۔ 11 سال کی عمر سے ہی کہانیاں لکھنے والی قرۃ العین حیدر کو اردو ادب کی ورجینیا وولف کہا جاتا ہے۔ انہوں نے پہلی بار اردو ادب میں سٹریم آف کونشیئسنس تکنیک کا استعمال کیا تھا۔ اس تکنیک کے تحت کہانی ایک ہی وقت میں مختلف سمت میں چلتی ہے۔ ان کی وفات 21 اگست 2007ء کو نوئیڈا میں ہوئی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets