aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
دارا شکوہ صوفی منش اور آزاد خیال انسان تھا، وہ شہزادے سے زیادہ عالم تھا۔ صوفی خیالات اور مسلک کے لحاظ سے وہ قادری سلسلے سے بیعت تھا جس نے ہندوستان میں ہندو مسلم اشتراک پر زور دیا۔ دارا مغل شہزادہ ہونے کے ساتھ ایک نامور مصنف تھا ۔ادب کا مطالعہ کرنے والوں کے نزدیک دارا شکوہ ایک عظیم صوفی ،شاعر اور ادیب ہے۔ دارا شکوہ "ہمہ اوست"کے نظریہ کا قائل تھا ،اس نے اپنی رباعیات کے ذریعہ اخلاقی مضامین اور صوفیانہ خیالات کو جگہ دی ہے ۔دارا شکوہ کی رباعیاں فارسی ادب کا گراں مایہ سرمایہ ہیں ۔اس کی رباعیات میں روایتی شاعری کے تمام لوازمات صنائع ،بدائع اور محاوروں کا استعمال، اور آسان الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔اس کی رباعیات میں وہ ساری خوبیاں موجود ہیں جوعمر خیام ، عطار اور مولانا روم سے دارا شکوہ تک پہنچی تھیں ۔زیر نظر کتاب دارا شکوہ کی ان رباعیوں کا اردو ترجمہ ہے جو دارا شکوہ نے فارسی میں کہیں تھیں۔ دارا شکوہ کی رباعیات کا یہ اردو ترجمہ منظوم ہونے کے ساتھ ساتھ لفظی بھی ہے اور مفہوم کی بھر پور ترجمانی بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ رباعی کے قوافی کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
دارا شکوہ (1615–1659) مغل بادشاہ شاہ جہاں کا سب سے بڑا بیٹا اور نامزد ولی عہد تھا۔ وہ اپنے متجسس ذہن، صوفیانہ عقیدت، اور مذہب کے بارے میں وسیع النظری کے سبب دربار میں بے حد مقبول تھا۔ اس نے اپنے روحانی مرشد، قادری سلسلے کے بزرگ، کے احترام میں قلمی نام "قادری" اختیار کیا، اور فارسی زبان میں ایک ضخیم دیوان تحریر کیا، جس میں غزلیں، رباعیات، اور قصائد شامل ہیں۔
وحدت ادیان کو ثابت کرنے کے عزم میں، دارا شکوہ نے پچاس اوپنشادوں کا فارسی میں ترجمہ "سرِّ اکبر" کے عنوان سے کیا، اور "مجمع البحرین" نامی ایک انقلابی رسالہ تحریر کیا، جس میں صوفیانہ اور ویدانتی اصطلاحات کو ایک ساتھ پیش کیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں "سفینة الاولیاء"، "رسالہ حق نما"، اور "اکسیر اعظم" شامل ہیں، جو سب اُس کی اسلامی تصوف اور ہندو فلسفے کو قریب لانے کی جستجو کی عکاس ہیں۔
دارا شکوہ کے آزاد خیال نظریات نے اسے مقبول مگر متنازع شخصیت بنا دیا۔ 1657 سے 1659 تک کے جنگِ جانشینی میں وہ شکست کھا گیا، اُس پر الحاد کا مقدمہ چلا، اور اورنگزیب کے حکم پر اسے سزائے موت دی گئی۔ تاہم، اس کی تصانیف آج بھی جنوبی ایشیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کی ابتدائی اور پائیدار کوششوں میں شمار کی جاتی ہیں۔