aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
زیر نظر تصنیف میں جدیدیت کے نظریہ پر بہت اہم بحث کی گئی ہے۔ دراصل جدیدیت پر دو گروہ ہے۔ ان میں سے ایک گروہ جدیدیت کو روایت کا حریف بنا کر پیش کرتا ہے ۔ دوسرا گروہ جدیدیت کو مشتبہ قرار دے کر روایت پر اصرار کرتا ہے۔ غرضیکہ دونوں گروہ انہتا پسندی کے راستے پر رواں ہیں۔ مگر اس کتاب میں ان دونوں انتہا پسند نظریوں سے صرف نظر کرکے جدیدیت کو روایت کے نامیاتی تسلسل اور شعری جمالیات کے تناظر میں سمجھانے کی ایک کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ کتاب میں آٹھ ابواب ہیں اور ہر باب کے تحت کچھ ذیلی عناوین قائم کئے گئے ہیں۔ جابجا حواشی اور حوالہ جات بھی ہیں جن سے مفاہیم کو سمجھنے میں مزید آسانی پیدا ہوتی ہے۔ کتاب کو پڑھنے سے جدیدیت پر ایک مساوی نظریہ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
نام افتخار الحسن، ڈاکٹر اورتخلص عنوان تھا۔وہ۱۹۳۵ء قصبہ منگلور، ضلع سہارن پور(اترانچل) میں پیدا ہوئے۔ ایم اے (جغرافیہ) ایم اے (اردو) کے امتحانات پاس کیے۔ اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ میں لکچرر،ریڈر، پروفیسر اور صدرشعبہ اردو رہے اور وہیں پر ڈین فیکلٹی کے منصب سے ۱۹۹۷ میں ریٹائر ہوئے۔ انھیں ابراحسنی گنوری سے تلمذ حاصل تھا۔ وہ یکم فروری ۲۰۰۴ء کو نوئیڈا میں انتقال کرگئے۔ انھوں نے تقریبا چالیس علمی اور ادبی کتابیں تصنیف کی ہیں۔ چند تصانیف کے نام یہ ہیں: ’ذوق جمال‘، ’نیم باز‘(شعری مجموعے)، ’عکس وشخص‘(شخصیات)، ’تنقیدی پیرائے‘، ’اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے‘، ’اردو شاعری میں جدیدیت کی روایت‘، ’عروض اور فنی مسائل‘، ’تنقید سے تحقیق تک‘، ’مکاتیب احسن‘(مقدمہ وحواشی ۔جلد اول ودوم)، ان کو اردو اکادمی ، دہلی نے ۱۹۹۱ء میں اردو شاعری ایوارڈ سے نوازا۔ اس کے علاوہ ان کو مختلف اداروں ، انجمنوں اور اکادمیوں نے متعدد ایوارڈ عطا کیے۔ موصوف ایک دانشور، سیرت نگار، تنقید نگار، شاعر، ماہر عروض اور استاد شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:303
Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi
Get Tickets